دوسری عالمی جنگ کے چند ماہ بعد برطانوی وکیل سرل ریڈ کلف اپنے دفتر میں بیٹھا تھا اور قیام امن کے بعد وہ دوبارہ اپنے فرائض کی ادائی کے لیے تیار تھا، اس نے جنگ عظیم میں اپنے ملک کی خدمت کرتے ہوئے معلوماتی انتظامیہ کا کام کیا تھا۔
اس وقت تک اس شخص نے کبھی بھی پیرس کے مشرق تک سفر نہیں کیا تھا، لیکن اچانک 1947 میں لندن نے فیصلہ کیا کہ اسے بھاری ذمہ داری دے کر مشرق کی طرف بھیجا جائے، جہاں اس کا سب سے بڑا نو آبادیاتی خطہ موجود تھا، جسے اب وہ آزاد کرنے کا منصوبہ بنا چکا تھا، تاہم آزادی کا اعلان ایک خونریز تقسیم کے ساتھ ہوا، جس کے نتیجے میں دو ممالک وجود میں آگئے: بھارت اور پاکستان۔
اس وکیل کو برطانوی حکومت نے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان سرحدیں طے کرنے والی کمیٹی (Boundary Demarcation) کی قیادت سونپی اور اسے صرف سات ہفتوں کا وقت دیا گیا تھا۔ اس شخص کو نہ تو ہندوستان کے بارے میں کچھ علم تھا اور نہ ہی ایشیا کے بارے میں، اور یہی بات دراصل برطانویوں کے لیے جواز بن گئی کہ اسے بھیجا جائے، کیونکہ اسے دونوں فریقوں کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا اور اس لیے وہ ایک طرفہ تنازع میں غیرجانبدار سمجھا جا سکتا تھا، یا ایسا برطانویوں کا خیال تھا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ برطانیہ کی ایک سوچی سمجھی سازش اور شیطانی منصوبہ تھا۔
ریڈکلف نے پاکستان کے ساتھ جو ظلم و زیادتی کی، وہ تاریخ کا سیاہ باب اور برطانیہ کے ماتھے پر وہ دھبا ہے، جو کبھی مٹ نہیں سکے گا۔ کشمیر کا لاینحل مسئلہ اور اس کے نتیجے میں لاکھوں جانوں کا ضیاع بھی اسی شاطر دماغ کی دین ہے۔ “اگر محمد علی جناح پاکستان کے قیام کے ذمہ دار ہیں، تو سرل ریڈ کلف اس جغرافیہ کے ذمہ دار ہیں، جو ان دونوں ملکوں کے درمیان آج موجود ہے۔” یہ الفاظ یونیورسٹی آف جنوبی ڈکوٹا میں تاریخ اور سیاست کے استاد کارل شمڈٹ نے اپنی ایک کتاب میں جنوب ایشیا کی تاریخ کے حوالے سے لکھے تھے۔
ریڈ کلف کی قائم کردہ سرحد (Radcliffe Line) آج دونوں ایٹمی طاقتوں کے درمیان ایک لکیر کے طور پر موجود ہے، جو نہ صرف ہندوستانی برِّ صغیر کو تقسیم کرتی ہے، بلکہ تاریخی پنجاب کے علاقے کو بھی، جو اپنے نام سے ہی ظاہر کرتا ہے کہ یہ “پانچ دریاؤں” کا خطہ تھا (پنج کا مطلب پانچ اور آب کا مطلب پانی ہوتا ہے)۔ ہندوستان پانی کا منبع ہے اور وہاں سے پانی بہہ کر پاکستان آتا ہے۔ یہ پانچ دریا “جہلم”، “چناب”، “راوی”، “بیاس” اور “ستلج” ہیں، جو سب دریائے سندھ سے نکلتے ہیں۔ اب ہندوستان موجودہ صورت حال کا فائدہ اٹھا کر اپنے سیاسی مفادات کو آگے بڑھا رہا ہے اور ان معاہدوں کو تسلیم کرنے سے انکار کر رہا ہے جو دونوں ممالک کے درمیان ان کے مشترکہ دریاؤں سے نکلنے والے پانی کی تقسیم کو منظم کرتے ہیں۔ یہ صورت حال دونوں ایٹمی طاقتوں کے درمیان ایک تصادم کو جنم دے سکتی ہے، جو پورے خطے میں پھیل سکتا ہے۔ اس پس منظر میں چین ایک اہم کھلاڑی کے طور پر سامنے آ رہا ہے، جو ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات میں کشیدگی کا فائدہ اٹھا کر اپنے اثر و رسوخ کو مستحکم کر رہا ہے اور خطے میں اپنی موجودگی کو مزید مضبوط کر رہا ہے۔ جہاں ہندوستان اور چین کے درمیان سرحدی تنازعات بڑھ رہے ہیں، خاص طور پر ہمالیہ کے پہاڑوں میں جہاں دریاؤں کے منبع ہیں، یہ صورتحال دونوں ممالک کے درمیان تنازعہ کے نقشے کو مزید پیچیدہ بناتی ہے۔ ان سیاسی اور اقتصادی نتائج کے درمیان، افغانستان خود کو اس آبی تنازعے میں شامل ہونے پر مجبور پائے گا، تاکہ متوقع ترقی کے لیے راستہ تلاش کر سکے اور امریکہ، نیٹو اور اس سے پہلے سوویت یونین کے ساتھ جنگ کے نقصانات کا مداوا کرنے کے لیے سنجیدہ قدم اٹھائے گا اور جہاں سیاست اور جغرافیہ کے دریا اس ایشیائی علاقے میں ایک دوسرے سے متصادم ہوتے ہیں، بہتے ہیں اور زمینوں کو سیراب کرتے ہیں، تہذیبوں کو غذا فراہم کرتے ہیں، وہیں یہ لمحے کے اندر تباہ کن قوت اختیار کر سکتے ہیں، جو دنیا کے سب سے خطرناک تنازعات کو بھڑکانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
دریائے سندھ کا معاہدہ:
دریائے سندھ پاکستان کے لیے پانی کے اہم ترین ذرائع میں سے ایک سمجھا جاتا ہے، کیونکہ اس کے پانی سے پاکستان کی 65 فیصد زرعی زمینوں کی آبپاشی کی جاتی ہے اور دریا کے زیرِ آبپاشی زمینیں ملک کی غذائی اجناس اور ریشوں کی پیداوار میں تقریباً 90فیصد حصہ ڈالتی ہیں۔ ملکی زراعت کا اس دریا پر بڑا انحصار ہے، جبکہ زراعت ملک کی مجموعی قومی پیداوار کا تقریباً پانچواں حصہ فراہم کرتی ہے اور ملک کی تیس سے زائد فیصد افرادی قوت کا انحصار بھی زراعت پر ہے۔ یعنی یہ پانی پاکستان کے عوام کیلئے بقا کا مسئلہ ہے۔ بھارت نے آزادی کے بعد سے دریائے سندھ اور اس کی معاون نہروں پر 50 سے زائد ڈیم تعمیر کیے ہیں۔ دریائے سندھ اور پانیوں پر تنازعات کا آغاز 1947 میں ہندوستان کی تقسیم کے بعد ہوا، جب برطانیہ نے ہمالیہ کے علاقے میں اپنے مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے سرحدوں کی حد بندی کی، یہ وہ علاقہ تھا جہاں تین بڑی طاقتیں آپس میں ٹکرا رہی تھیں: برطانیہ، جو ہندوستان میں اپنے اثر و رسوخ کا حامل تھا، چین جو تبت اور مشرقی ترکستان پر قابض ہو چکا تھا، اور سوویت یونین جس نے وسطی ایشیائی ریاستوں کو اپنے زیرِ تسلط لے لیا تھا، جو 1991 تک اس کے ساتھ رہیں۔ برطانیہ نے اپنے براہِ راست استعمار کے دوران دریاؤں اور پہاڑوں کو اپنی استعماری سرحدوں کی نشاندہی کے لیے اہم بنیاد کے طور پر استعمال کیا۔ سندھ کے پانیوں پر جو لائنیں کھینچی گئیں، اس کا مطلب تھا کہ ہندوستان کو ان دریاؤں کے منبع پر کنٹرول حاصل ہے۔ پنجاب کے علاقے کی تقسیم نے دونوں ممالک کے درمیان ایک مضبوط سرحد قائم کر دی اور پھر دریائے سندھ کے پانیوں پر تنازعہ شروع ہو گیا، جس کے نتیجے میں پاکستان کو پانی کی فراہمی رک گئی اور اس کے آبپاشی کے نظام میں خلل پڑا۔ اس وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان سیاسی تنازعہ جنم لیا۔ ہندوستان نے اس وقت یہ مؤقف اختیار کیا کہ پاکستان ہندوستانی پنجاب کے پانیوں پر کسی قسم کے حقوق کا دعویٰ نہیں کر سکتا، لیکن پاکستان نے پانی کے بین الاقوامی قانون کے تحت یہ دلیل پیش کی کہ جن ممالک سے دریا گزرتے ہیں، ان سب کو پانی کی مساوی مقدار میں حصہ ملنا چاہیے اور یہ حصہ زمین کے رقبے، آبادی اور زرعی استعمال کے مطابق ہونا چاہیے۔ اس کے نتیجے میں دونوں ممالک نے 1948 میں ایک عارضی معاہدہ کیا، جو ان کے پانی کی تقسیم سے متعلق مطالبات پر غور کرنے کے لیے ایک بنیاد فراہم کرتا تھا۔ اس کے بعد، ورلڈ بینک نے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان 12 سال تک جاری رہنے والی بات چیت میں ثالثی کی، جس سے پانی کے استعمال کے حوالے سے تناؤ کو کم کرنے میں مدد ملی۔ بالآخر دونوں فریقوں نے 1960 میں سندھ طاس معاہدہ پر دستخط کیے، جس نے پانی کی تقسیم کے طریقہ کار کو منظم کیا اور اس معاہدے کو تب سے لے کر اب تک دونوں ممالک کے درمیان تنازعات کے حل کے لیے ایک اہم حوالہ بنایا گیا ہے۔ معاہدے میں طے پایا کہ مغربی دریا (دریائے سندھ، جلہم اور چناب) پاکستان کے حصے میں آئیں گے، جبکہ مشرقی دریا (راوی، بیاس اور ستلج) ہندوستان کے حصے میں آئیں گے۔ معاہدے نے ہندوستان کو مغربی دریا کے پانی کو محدود طور پر آبپاشی کے لیے استعمال کرنے کی اجازت دی، تاہم توانائی کی پیداوار اور کشتیاں چلانے کے لیے اس کے استعمال میں کوئی پابندی نہیں تھی۔ اس تقسیم نے دونوں ممالک کے لیے آبی وسائل اور ہائیڈرو پاور کے منصوبوں کو ترقی دینے کا ایک فریم ورک فراہم کیا، جو پچھلے پچاس سال سے زیادہ عرصے تک کارگر رہا۔ تاہم، ہندوستان کی اقتصادی اور عوامی ضروریات میں اضافے نے اسے آبی وسائل اور توانائی کے منصوبوں کو وسعت دینے پر مجبور کیا تاکہ وقت کے ساتھ ساتھ اس کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کیا جا سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کو صاف پانی کی فراہمی کے حوالے سے چیلنجز کا سامنا رہا، کیونکہ اس کی بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے پانی کی ضرورتوں کو پورا کرنا مشکل ہو گیا۔ پاکستان کی تقریباً 36فیصد آبادی ہی پینے کے قابل صاف پانی حاصل کرتی ہے۔ پچھلی نصف صدی کے دوران پاکستان میں ہر فرد کے حصے میں آنے والی سالانہ پانی کی مقدار بتدریج کم ہوتی گئی، جب کہ آبادی میں اضافہ ہوتا رہا۔ اس دوران، پاکستان 1980 کی دہائی میں خطرے کے زون میں داخل ہوا اور پھر 21ویں صدی کی پہلی دہائی میں پانی کی سلامتی کی حد سے بھی نیچے (ہر فرد کے لیے سالانہ 1000 مکعب میٹر سے کم) چلا گیا۔
آبی تنازع کے دو نکات:
ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تنازعہ بنیادی طور پر دو نکات پر مرکوز ہے: پہلا، ہندوستان کے فیصلہ سازوں کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی مختلف من مانی تشریحات کرکے اس کی خلاف وزی کی جاتی رہی۔ جس کی وجہ سے ہندوستان کا معاہدے پر عمل ایک سوالیہ نشان بن گیا ہے، جبکہ پاکستان ہندوستان پر معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام عائد کرتا ہے، خاص طور پر ڈیمز تعمیر کرنے اور دریاؤں کے رخ کو موڑنے کی وجہ سے۔ دوسرا تنازعہ دریاؤں کے پانی کی تقسیم سے متعلق ہے، کیونکہ کئی اہم دریا جو ہمالیہ کے پہاڑوں سے نکلتے ہیں، ہندوستان کی سرحد کے اندر ہیں، پھر وہ مقبوضہ کشمیر کے علاقے سے گزر کر پاکستان میں داخل ہوجاتے ہیں۔
ہندوستان کی خواہش ہے کہ وہ پانی ذخیرہ کرے تاکہ زراعت کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنا سکے اور زرعی پیداوار کو بڑھا سکے، اس لیے ہندوستان معاہدے میں تبدیلی کا مطالبہ کرتا ہے تاکہ مزید ڈیمز تعمیر کیے جا سکیں تاکہ زیادہ پانی ذخیرہ کیا جا سکے۔ لیکن عموماً توانائی پیدا کرنے والے منصوبے زیادہ پانی ذخیرہ نہیں کرتے جب تک کہ وہ منصوبے توانائی اور آبپاشی دونوں مقاصد کے لیے نہ ہوں۔ کِشن گنگا ڈیم (Kishenganga) بھارت اور پاکستان کے درمیان تناؤ بڑھانے والے سب سے زیادہ متنازعہ ڈیموں میں سے ایک ہے۔
بھارت نے اس ڈیم کی تعمیر 2007 میں شروع کی تھی، جبکہ پاکستان کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی ہے، جس کے بعد پاکستان نے اس معاملے کو 2010 میں ہیگ میں عالمی ثالثی عدالت میں اٹھایا، جس نے تین سال کے لیے اس منصوبے کو روک دیا۔ پھر 2013 میں عدالت نے فیصلہ دیا کہ کِشن گنگا ڈیم سندھ طاس معاہدے کے مطابق ہے اور بھارت کو ڈیم تعمیر اور چلانے کا پابند کیا گیا، بشرطیکہ وہ دریائے سندھ کے پانی کی روانی کو برقرار رکھے۔ پاکستان کا دعویٰ ہے کہ اس ڈیم کی وجہ سے دریائے سندھ کے پانی کا بہاؤ 27 فیصد کم ہو گیا ہے۔ نریندر مودی کے مئی 2014 میں بھارتیہ جنتا پارٹی (BJP) کے سربراہ کے طور پر اقتدار میں آنے کے بعد بھارت اور پاکستان کے تعلقات میں کشیدگی دیکھی گئی۔ اگست 2014 میں، پاکستان کے ہائی کمشنر کی طرف سے کشمیری حریت پسندوں سے ملاقات کے ردعمل میں دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کے درمیان مذاکرات منسوخ کر دیئے گئے تاہم جولائی 2015 میں مودی اور پاکستان کے اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے مذاکرات دوبارہ شروع کرنے پر اتفاق کیا۔ اسی سال نومبر میں، مودی اور نواز شریف نے پیرس میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے کانفرنس کے دوران ملاقات کی اور دونوں نے مذاکرات کے عمل پر اپنے عزم کا اعادہ کیا۔ تاہم، کشیدگی ایک بار پھر اس وقت بڑھ گئی جب سال کے آغاز میں بھارتی فوجی اڈے پر حملے کی وجہ سے وزرائے خارجہ کے مذاکرات ملتوی ہو گئے، جس کی ذمہ داری حریت پسند کشمیری گروپوں پر عائد کی گئی تھی۔
اس کے بعد پاکستان نے اپریل 2016 میں بھارت کے ایک حاضر سروس نیول افسر کلبھوشن یادیو کی گرفتاری کے بعد بھارت کے ساتھ امن مذاکرات معطل کر دیئے۔ اسے تخریبی نیٹ ورک چلاتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑا گیا تھا۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ 2016 کی گرمیوں میں بھارت اور پاکستان کے درمیان راتل اور کشن گنگا منصوبوں کے انجینئرنگ ڈیزائنز پر مذاکرات ناکام ہو گئے۔ اس کے بعد بھارتی وزیراعظم مودی نے کہا کہ بھارت دریائے ستلج اور بیاس کا پانی پاکستان کو نہیں دے گا۔ کِشن گنگا ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کی تعمیر 2018 میں مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر میں 330 میگاواٹ کی صلاحیت کے ساتھ مکمل کی گئی اور اس کا مقصد پانی کو کشن گنگا دریا سے نکال کر جہلم دریا کے بیسن میں بجلی پیدا کرنے والی ایک اسٹیشن تک پہنچانا ہے۔ جبکہ راتل پروجیکٹ کی صلاحیت 850 میگاواٹ ہے اور یہ چناب دریا کے پانی میں 40فیصد تک کمی کا باعث بن سکتا ہے، جس سے پاکستان کے وسطی پنجاب میں زراعت پر بہت منفی اثر پڑے گا۔ پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جو پانی کے سنگین بحران کا شکار ہیں۔ ایک حالیہ تخمینہ کے مطابق، پاکستان 2025 میں 31 ملین فٹ پانی کی کمی کا سامنا کرے گا۔ اس کے علاوہ، ملک کے زیرِ زمین پانی کے ذخائر خطرناک حد تک ختم ہو چکے ہیں، کیونکہ پانی کی زیادہ مقدار نکالی جا رہی ہے اور ساتھ ہی ملک کے سب سے بڑے ڈیموں کی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں کمی آئی ہے، کیونکہ ان میں ریت اور گاد کی زیادہ مقدار جمع ہو گئی ہے۔ پاکستان بھارتی ڈیموں کو اپنے پانی کے حقوق کی خلاف ورزی سمجھتا ہے۔ ایک اور زاویے سے، کشمیر میں ہندوستانی فوجیوں پر حملے، جو حریت پسند کشمیری گروپوں کی طرف سے کیے جاتے ہیں، ان حملوں کو بھارتی ڈیموں کے منصوبوں سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ یہ منصوبے مقامی لوگوں کے غصے کو بڑھاتے ہیں، کیونکہ ان کے علاقے میں دریاؤں کا رخ تبدیل ہو جاتا ہے اور ان کی زمینوں پر پروجیکٹس قائم کیے جاتے ہیں۔ جنوری 2023 میں بھارت نے پاکستان کو ایک نوٹس بھیجا، جس میں اس سے سندھ طاس معاہدے میں ترمیم کرنے کا مطالبہ کیا گیا اور کہا گیا کہ بھارتی حکومت معاہدے پر دوبارہ بات چیت کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور بھارت کی کئی آوازیں اس بات کا مطالبہ کر رہی ہیں کہ حکومت معاہدے سے دستبردار ہو جائے۔ اس پر پاکستان نے معاہدے میں ترمیم میں حصہ لینے سے انکار کیا اور بالآخر اس معاملے کو عالمی سطح پر اٹھایا۔
چین اور افغانستان:
پنجاب کے دریاؤں کے تنازعے کو جنوبی ایشیا میں بڑے جغرافیائی منظرنامے سے الگ نہیں کیا جا سکتا، خاص طور پر چین اور افغانستان سے۔ اگرچہ بھارت معاہدے کے ساتھ چالاکی سے نمٹنے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن اگر بھارت نے اسے واضح طور پر توڑا یا معاہدے سے دستبردار ہوا تو اس سے چین کو بھارت کی دریاؤں پر ڈیم بنانے کے اقدام کو قانونی حیثیت مل سکتی ہے اور اس صورتحال میں بھارت خود ایک بڑی مشکل میں پھنس جائے گا، جس کا آغاز اس نے خود کیا تھا۔ مثال کے طور پر، دریائے براہم پترا جنوب مغربی چین کی تبت کی سطح مرتفع سے نکلتا ہے اور یہ ندی 2900 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے ہمالیہ کی پہاڑیوں سے گزرتا ہوا آخرکار بھارت پہنچتی ہے۔ اس خطے میں پانی کے حوالے سے جغرافیائی سیاسی تبدیلیوں کی شدت اور رفتار کو سمجھنے کے لیے ہم چین کے پہلے منصوبے کو دریائے برہم پترا پر دیکھ سکتے ہیں، جس میں 1998 میں ایک ہائیڈرو پاور اسٹیشن بنایا گیا تھا۔ اس کے بعد چین نے ندی پر پے درپے تقریباً 18 ڈیم بنائے ہیں، جن میں سب سے اہم “گریٹ بینڈ” ڈیم ہے، جو ندی کے پانی کو تقریباً دو کلومیٹر طویل سرنگ کے ذریعے موڑتا ہے اور چین کے مشہور “تھری جورجز” ڈیم سے بھی دوگنی توانائی پیدا کرتا ہے۔ اگرچہ چین کا انفرا اسٹرکچر بنیادی طور پر دریائے براہم پترا سے پانی نکالنے کے لیے ڈیزائن نہیں کیا گیا، لیکن وہ اس کے بہاؤ کی رفتار اور وقت پر اثر انداز ہو سکتا ہے، جس سے سیلاب کے خطرات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ اس صورتحال کے پیش نظر، بھارت کی وزارت آبی وسائل نے دریائے براہم پترا پر 10 گیگاواٹ کی صلاحیت کے ایک ہائیڈرو پاور منصوبے کا اعلان کیا ہے، جس کا مقصد “چین کے ڈیم منصوبوں کے منفی اثرات” کو کم کرنا ہے، کیونکہ اس ڈیم کا ڈیزائن ایسا ہے کہ اگر چین کے ڈیم سیلاب کا سبب بنیں، تو اس میں سیلابی پانی کو ذخیرہ کرنے کی صلاحیت موجود ہوگی۔ دوسری طرف، کابل ندی اور اس کی معاون ندیاں افغانستان سے پاکستان کی طرف بہتی ہیں۔ کابل ندی پاکستان کے ضلع چترال میں ہندوکش پہاڑوں سے نکلتی ہے اور اس میں کنار ندی اور کئی چھوٹی ندیاں بڑی مقدار میں پانی فراہم کرتی ہیں۔ یہ ندی پاکستان سے افغانستان میں داخل ہوتی ہے اور پھر مشرق کی طرف کابل اور جلال آباد سے گزرتی ہوئی پھر پاکستان میں داخل ہوتی ہے۔ پاکستان میں، کابل ندی سوات ندی اور اس کی معاون ندیوں کے ساتھ مل کر دریائے سندھ میں جا گرتی ہے۔ دریائے کابل افغانستان کے تازہ پانی کا چوتھائی حصہ فراہم کرتا ہے اور اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ کابل اور جلال آباد کے پانچ ملین باشندے اپنی پانی کی ضروریات کے لیے اس پر انحصار کرتے ہیں۔ افغانستان بجلی کے شدید بحران کا شکار ہے، جہاں صرف 28 فیصد گھرانے بجلی کی فراہمی کے نظام سے منسلک ہیں۔ 1950 سے 1970 کے درمیان تعمیر کیے گئے اور حالیہ برسوں میں دوبارہ بحال کیے گئے ڈیم مجموعی طور پر 300 میگاواٹ سے بھی کم بجلی پیدا کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ افغانستان اپنی 80 فیصد بجلی کی ضروریات وسطی ایشیا کے ہمسایہ ممالک سے درآمد کرتا ہے۔ کابل حکومت نے 20 سے زائد چھوٹے اور درمیانے درجے کے آبی بجلی کے منصوبوں، جن میں دریائے کابل کے طاس میں درجنوں ڈیم شامل ہیں، کے لیے فیزیبلٹی اسٹڈیز مکمل کی ہیں، لیکن مالی وسائل نہ ہونے کے سبب وہ ان منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے سے قاصر رہی ہے۔ بھارت کی جانب سے اشرف غنی حکومت کے دوران افغانستان میں کچھ منصوبے بنانے کے ارادے نے پاکستان میں تشویش پیدا کر دی تھی، کیونکہ ان منصوبوں کے نتیجے میں کابل سے بہہ کر آنے والے پانی کی مقدار میں کمی کا خدشہ تھا۔ افغانستان کی بڑھتی ہوئی ضروریات اور طالبان حکومت کے تحت سیاسی و سیکورٹی استحکام پاکستان کے لیے ایک نئی ممکنہ پریشانی کا اشارہ ہے۔ اگر ان منصوبوں کے لیے مالی وسائل دستیاب ہو گئے، تو طالبان حکومت انہیں خود سے یا چین کے ساتھ تعاون کے ذریعے مکمل کر سکتی ہے۔ چین کے لیے اس راستے پر آگے بڑھنے کی دو بڑی وجوہات ہو سکتی ہیں: پہلی، افغانستان میں اپنے اثر و رسوخ کو وسعت دینا اور دوسری، اپنے ان دریاؤں پر اپنی علاقائی پالیسی اور منصوبے نافذ کرنا جو بھارت میں جا کر گرتے ہیں، جو کہ اس کا اہم ترین حریف ہے۔ اس لیے امکان ہے کہ چین، افغانستان اور پاکستان کے درمیان مشترکہ ترقیاتی منصوبوں پر کام کرے اور خود کے مالی تعاون سے دونوں ممالک کے درمیان معاہدات کی بنیاد رکھے۔ یہ تمام عوامل اس بات کی علامت ہیں کہ اگر بھارت سندھ طاس معاہدے سے دستبردار ہوا، (جیسے کہ اعلان کیا ہے) تو یہ پورے خطے میں ایک نئے دور کے آغاز کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے، ایک ایسا دور جو علاقائی طاقتوں کے درمیان پانی پر ممکنہ تنازعات کو جنم دے سکتا ہے۔
ڈیمز: تباہی کا خطرہ اور ماحولیاتی تغیرات:
پانی سے متعلق زیادہ تر تنازعات ہمیشہ ریاستِ منبع (جہاں سے دریا نکلتا ہے) کے کسی بڑے ڈیم یا منصوبے کے آغاز کے بعد ریاستِ مصب (جہاں پانی جاتا ہے) کی طرف سے اٹھتے ہیں، کیونکہ یہ منصوبے پانی کی فراہمی کو متاثر کرتے ہیں۔ ڈیم دریا کے ماحولیاتی نظام میں ایک انقلابی تبدیلی لا سکتے ہیں۔ وہ پانی کے بہاؤ اور نیچے کی طرف مٹی و گاد کے قدرتی بہاؤ کو تبدیل کرتے ہیں، یا مکمل طور پر روک دیتے ہیں، جو کہ درجہ حرارت میں اتار چڑھاؤ اور بالآخر آبی ماحولیاتی نظام پر منفی اثرات ڈالتا ہے۔ ڈیمز کی عملیاتی و تکنیکی خصوصیات کو عام طور پر دو اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے:
1. ذخیرہ اندوز ڈیم: یہ پانی روکنے، ذخیرہ کرنے اور مطلوبہ وقت پر اسے چھوڑنے کے لیے بنایا جاتا ہے اور یہ ریاستِ مصب کے لیے زیادہ موزوں ہوتا ہے۔
2. برقی توانائی پیدا کرنے والا ڈیم: اس میں پانی کی زیادہ مقدار ذخیرہ نہیں کی جاتی، بلکہ اسے فوری طور پر بجلی پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور یہ ریاستِ منبع کے لیے موزوں ہوتا ہے۔
مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب ریاستِ منبع ایسے ڈیمز بناتی ہے جن کا مقصد بڑی مقدار میں پانی ذخیرہ کرنا ہوتا ہے۔ یہ ریاستِ مصب کے لیے خطرناک ثابت ہوتا ہے، خاص طور پر جب وہ زراعت پر انحصار کرتی ہو اور اس کے پاس پانی کے متبادل ذرائع نہ ہوں۔ چنانچہ تنازعہ کا بنیادی نکتہ ہمیشہ ڈیم کا ڈیزائن اور اس کی عملیاتی نوعیت ہوتی ہے: آیا وہ صرف بجلی پیدا کرنے کے لیے ہے یا آبپاشی کے لیے بھی، یا دونوں مقاصد کے لیے یکساں۔ علاوہ ازیں، ڈیموں کا ٹوٹ جانا، زلزلے آنا یا دریاؤں کا رخ بدل جانا دیہاتوں اور شہروں میں بڑے پیمانے پر تباہی کا باعث بن سکتا ہے۔ مثلاً، 1975 میں چین میں بان چیاؤ ڈیم کے انہدام کے نتیجے میں 26 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے، اور آس پاس کے دیہات اور بنیادی ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچا تھا۔ اسی طرح فروری 2021 میں بھارت کی ریاست سکِّم میں واقع سب سے بڑے ڈیم “تیستا-3” کے گرنے کا واقعہ پیش آیا۔ یہ حادثہ پہاڑوں کی چوٹیوں پر موجود ایک گلیشیئر جھیل کے پھٹنے سے ہوا، جس کے نتیجے میں وادی لاچِن میں درجنوں افراد ہلاک اور بڑی تباہی ہوئی۔ پھر اکتوبر 2023 میں یہی المیہ دوبارہ پیش آیا، جب ایک اور گلیشیئر جھیل کے اچانک بہاؤ نے ریاست سکِّم کے سب سے بڑے ڈیم میں دراڑیں ڈال دیں، جس کے نتیجے میں 30 سے زائد افراد جان سے گئے اور کئی دیہات تباہ ہو گئے۔ ان واقعات نے بھارتی ڈیموں کے ڈیزائن پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے، خاص طور پر جب کہ ان میں ابتدائی خبردار کرنے والا نظام (Early Warning System) موجود ہی نہیں، حالانکہ ہمالیہ کے گرد و نواح میں گلیشیئر جھیلوں کے اچانک بہاؤ کا خطرہ پہلے سے معلوم اور تسلیم شدہ ہے۔ ایک تحقیق میں ہمالیہ کے دو ہزار سے زائد گلیشیئر جھیلوں کے اعداد و شمار بتائے گئے ہیں، مگر ان جھیلوں کے بارے میں معلومات کا شدید فقدان ہے، جو یہ اندازہ لگانا مشکل بنا دیتا ہے کہ کون سی جھیل مستقبل میں تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔ یہ ایک خطرناک اشارہ ہے کہ بھارت کی جانب سے بنائے جانے والے ڈیم، ناکافی معلومات اور مطالعے کی وجہ سے، ممکنہ طور پر انہدام کے خطرے سے دوچار ہو سکتے ہیں، خاص طور پر جب گلیشیئر جھیلوں کے پھٹنے کے اثرات کو مدنظر نہ رکھا جائے۔
ڈیم: جنگ میں ایک خاموش ہتھیار:
18 ستمبر 2016 کو بھارت کی مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر کے شہر “اُوری” میں ایک مسلح گروہ نے قابض فوج کے اڈے پر حملہ کیا، جس میں متعدد فوجی مارے گئے۔ اس کے بعد بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک سخت بیان دیتے ہوئے کہا: “خون اور پانی ایک ساتھ نہیں بہہ سکتے۔” یہ پہلا موقع نہیں تھا جب بھارتی قیادت نے پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی بات کی ہو۔ 14 فروری 2019 کو جموں-سرینگر قومی شاہراہ پر بھارتی قابض فوجی قافلے پر خودکش حملے کے بعد بھارتی وزیر برائے آبی وسائل و شاہرات نے اعلان کیا کہ بھارت پاکستان کی طرف جانے والے دریاؤں کا پانی روکنے کے لیے اقدامات کرے گا۔ ان بیانات سے واضح ہوتا ہے کہ بھارت پانی کو ایک جیوپولیٹیکل ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ جہاں ایک طرف ڈیم بنا کر پانی کے بہاؤ کو محدود یا بند کیا جا سکتا ہے، وہیں زیادہ خطرناک پہلو یہ ہے کہ اگر بھارت جان بوجھ کر ڈیموں کے دروازے کھول دے تو وہ پاکستان میں اچانک، شدید اور تباہ کن سیلاب برپا کر سکتا ہے، جس پر قابو پانا مشکل ہوتا ہے۔ 2023ء کا تباہ کن سیلاب میں اس کی جھلک دکھائی دی تھی۔ ایسے حالات سے نمٹنے کے لیے بہت مضبوط، مہنگی اور وسیع البنیاد انفرا اسٹرکچر کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ سیلاب کے نقصانات کو کم کیا جا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی عسکری قیادت اور پالیسی ساز حلقے ڈیموں سے جڑے ممکنہ خطرات کو قومی سلامتی کے زاویے سے دیکھتے ہیں۔ ڈیم، کسی بھی آئندہ جنگ میں ایک خاموش لیکن مہلک ہتھیار بن سکتے ہیں، چاہے وہ پانی کے بہاؤ کو روک کر زرعی و شہری نظام کو مفلوج کر دیں، توانائی کے ذرائع کو متاثر کریں، یا پھر اچانک سیلاب کے ذریعے بڑے پیمانے پر تباہی مچا دیں۔ اسے “آبی جنگ” یا “ہائیڈرولک وار” کہا جاتا ہے اور درحقیقت یہ صدیوں سے رائج ہے، بلکہ شاید اس سے بھی پہلے سے۔ تاریخ گواہ ہے کہ پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرنا کوئی نئی حکمتِ عملی نہیں۔ مثال کے طور پر، دوسری عالمی جنگ کے دوران برطانوی فضائیہ نے 1942 میں جرمنی کے رُور وادی میں تین بڑے ڈیموں کو بمباری کے ذریعے تباہ کر دیا تھا۔ اس کارروائی کے نتیجے میں شدید سیلاب آیا اور تقریباً 1300 افراد ہلاک ہوئے، تاہم فوجی لحاظ سے اس کا جرمن فوج پر کوئی بڑا اثر نہ پڑ سکا۔ تاہم جدید تاریخ میں پانی کو سب سے زیادہ تباہ کن انداز میں بطور ہتھیار 1938 میں چین میں استعمال کیا گیا، جب قومی چینی فوج (Nationalist Chinese Forces) نے جاپانی فوج کی پیش قدمی روکنے کے لیے دانستہ طور پر زرد دریا (Yellow River) کے ڈیموں کو تباہ کر دیا۔ بعض تاریخی ذرائع کے مطابق، یہ کارروائی اگرچہ فوجی اعتبار سے کامیاب رہی، لیکن اس کی قیمت 8 سے 9 لاکھ شہری جانوں کی صورت میں ادا کی گئی، جو سیلاب کی نذر ہو گئے۔ حالیہ دنوں میں، یوکرین کے جنوبی علاقے میں واقع کاخووکا ڈیم (Kakhovka Dam) کو ایک دھماکے کے ذریعے تباہ کر دیا گیا، جس کے نتیجے میں زبردست سیلاب آیا اور ہزاروں افراد کو نقل مکانی پر مجبور ہونا پڑا۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان بڑھتے ہوئے تنازعات اس بات کا عندیہ دے رہے ہیں کہ دونوں ممالک مستقبل میں پنجاب کے زرخیز مگر منقسم خطے کے پانیوں پر ایک ہمہ گیر جنگ کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔ یہ کشیدگی محض جغرافیائی نہیں بلکہ اس کے پیچھے معاشی، نظریاتی اور نسلی عوامل بھی کارفرما ہیں۔ پاکستان کی پانی کے بڑھتے ہوئے تقاضے، اُسے مجبور کر سکتے ہیں کہ وہ بھارتی آبی جارحیت کو روکنے کے لیے براہِ راست تصادم کی راہ اپنائے، خاص طور پر وہ بھارتی منصوبے جو دریاؤں کے منبع پر تعمیر کیے جا رہے ہیں۔ دوسری طرف، بھارت کا یہ اعلانیہ رویہ کہ وہ جنگ کی صورت میں ڈیموں کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرے گا، پاکستان کی حکمت عملیوں اور آپشنز کو محدود کر رہا ہے۔ جنوبی ایشیا کا یہ منظرنامہ درحقیقت مشرقِ وسطیٰ جیسے خطوں سے کچھ مختلف نہیں، جہاں برطانوی سامراج کی کھینچی ہوئی مصنوعی سرحدیں آج بھی تنازعات کو جنم دے رہی ہیں۔ وہی پرانی نوآبادیاتی لکیریں آج بھی معیشت، معاشرت اور خطے کی تزویراتی سیاست پر اثر انداز ہو رہی ہیں، اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آئندہ بھی خطے کے مقدر کو یہی طے کریں گی۔