لاہور:بینک دولت پاکستان نے پاکستانی معیشت کی کیفیت پر پہلی سہ ماہی رپورٹ جاری کردی۔ رپورٹ کے مطابق پہلی سہ ماہی میں پاکستان کی معیشت بتدریج مطابقت کی راہ پر گامزن رہی۔ آئی ایم ایف کے توسیعی فنڈ سہولت پروگرام کی شروعات سے کلی معاشی استحکام کی رفتار بڑھ گئی۔
اسٹیٹ بینک نے مسلسل زری پالیسی کو مہنگائی کے وسط مدتی ہدف سے ہم آہنگ رکھا جبکہ مالیاتی محاذ پر یکجائی کی کوششیں نمایاں رہیں۔ مزید برآں، مارکیٹ پر مبنی شرح مبادلہ کا ایک نظام نافذ کیا گیا اور انٹربینک فارن ایکس چینج مارکیٹ نے خود کو اس نظام سے خاصا ہم آہنگ کر لیا۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ حکومت نے اسٹیٹ بینک کے قرضے کے رول اوور سمیت خسارے کی مونیٹائزیشن سے گریز کیا اور دستاویزیت کی کوششوں کو فعال انداز میں آگے بڑھایا ۔
رپورٹ کے مطابق جڑواں خساروں میں کمی کی شکل میں معاشی استحکام کی جاری کوششوں کے ثمرات نمایاں ہو چکے ہیں۔ مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں جاری کھاتے کا خسارہ بنیادی طور پر درآمدات میں خاصی کمی کی بدولت گر کر گذشتہ برس کی نصف سطح سے بھی کم رہ گیا۔
کم اکائی قیمتوں کی وجہ سے برآمدات کی نمو پست رہی۔ تاہم حجم کے لحاظ سے برآمدات میں قابل ذکر نمو دیکھی گئی۔ مالیاتی محاذ پر مجموعی خسارہ گذشتہ برس کی اسی مدت کے مقابلے میں کم رہا اور بنیادی توازن میں پچھلی 7سہ ماہیوں میں پہلی مرتبہ فاضل درج کیا گیا۔
اس بہتری میں محصولات میں اضافے اور اخراجات پر قابو پانے کے اقدامات دونوں نے کردار ادا کیا۔ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ سہ ماہی کے دوران ترقیاتی اخراجات میں 30.5 فیصد کی بلند نمو ہوئی۔
جی ڈی پی کے حوالے سے رپورٹ میں بتایا گیا کہ خریف کے موسم کے نظر ثانی شدہ تخمینوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اہم فصلوں کی پیداوار مالی سال 20 کے ہدف سے کم رہنے کا امکان ہے ۔
مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران بڑے پیمانے کی اشیا سازی کے شعبے میں 5.9 فیصد کی سال بسال کمی دیکھی گئی ۔ یہ تخفیف وسیع البنیاد تھی کیونکہ تعمیرات سے منسلک صنعتوں، پیٹرولیم اور گاڑیوں کی صنعتوں کی نمو میں کمی کا رجحان جاری رہا۔
اس کے مقابلے میں شرح مبادلہ میں پہلے کی گئی اصلاحات سے برآمدی صنعتوں کو مدد ملی ، جس کی عکاسی ٹیکسٹائل اور چمڑے کی نسبتا بہتر کارکردگی سے ہوتی ہے۔ تاہم بحیثیت مجموعی حقیقی جی ڈی پی کی 4 فیصد نمو کا ہدف حاصل ہونے کا امکان نظر نہیں آتا۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں عمومی صارف اشاریہ قیمت سی پی آئی مہنگائی 11.5 فیصد ہوگئی، جو مالی سال 19 کے آغاز سے شروع ہونے والے اضافے کے رجحان کا تسلسل ہے۔
مزید پڑھیں:بلاول بھٹو زرداری کی پیشکش پر پیپلزپارٹی کے ساتھ جانے کے لئے تیار ہیں ، وسیم اختر