کرا چی:ایف پی سی سی آئی کے صدر میاں ناصر حیات مگوں نے گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر رضا باقر سے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ہیڈ آفس کراچی میں ملاقات کی اور پاکستان کے کاروباری، صنعتی اور تجارتی برادری کو درپیش مسائل پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔
جن میں سر فہرست کمرشل بینک سے قرضے کے حصول میں ملاقات اور مانیٹری پالیسی کی زیادہ شرح سود تھے۔میاں ناصر حیات مگوں نے کہا کہ پالیسی کی شرح سود 6 فیصد سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے اور اگر اسٹیٹ بینک ملک میں کاروباری سرگرمیوں اور اقتصادی ترقی کو فروغ دینا چاہتا ہے تو اسے 5 فیصد تک لایا جائے۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ خطے میں پالیسی سود کی شرح صرف تین سے چار فیصد ہے اور ہمیں ریجن میں مقابلہ کے قابل رہنا ہے۔میاں ناصر حیات مگوں نے مزید کہا کہ اسٹیٹ بینک کیTERF اسکیم نے ایس ایم ایز کو مکمل طور پر نظر انداز کیا اور صرف چند بڑی صنعتوں کو سہارا دیا گیا۔
انہوں نے کاروبار اور صنعت کے لیے زیادہ قرض دینے کی گنجائش کو پیدا کرنے کے لیے ٹی بلز کو کمرشل بینکوں کے لیے محدود کرنے پر بھی زور دیا۔
ایف پی سی سی آئی کے سابق صدر میاں انجم نثار نے کہا کہ اسٹیٹ بینک کو کاروباری برادری کے ساتھ بہتر اور موثر روابط پیدا کرنے چاہئیں کیونکہ وہ محسوس کرتے ہیں کہ اسٹیٹ بینک کاروباری ترقی میں رکاوٹ ڈالنے والے مسائل سے پوری طرح واقف نہیں ہے۔
ناصر خان نائب صدر ایف پی سی سی آئی نے ایکسپورٹ انڈسٹری کے لیے تعاون کی کمی اور سرحدی تجارت کے لیے مایوس کن اعدادو شمار پر اپنے خدشات کا اظہار کیا۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ دنیا کے بہت سے ممالک اپنی کل برآمدات میں سرحدی تجارت کا 75 فیصد حصہ رکھتے ہیں۔ڈاکٹر رضا باقر نے ایف پی سی سی آئی کے وفد کواسٹیٹ بینک کے مکمل تعاون کی یقین دہانی کروائی اور ان پروگراموں اور دیگر اقدامات کے بارے میں معلومات فراہم کیں جو اسٹیٹ بینک نے کاروباری اور اقتصادی ترقی کو فروغ دینے کے لیے اٹھائے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دو سال کے عرصے میں پالیسی کی شرح کو 13 فیصد سے کم کر کے 7 فیصد کر دیا گیا ہے اور زرمبادلہ کے ذخائر کو 2 سال کے عرصے میں 10 بلین ڈالر بڑھا دیا گیا ہے اور یہ حقائق کاروباری برادری کو معاشی استحکام کے لیے اعتماد فراہم کریں گے۔
ڈاکٹر رضا باقر نے کہا کہ اسٹیٹ بینک کاروباری برادری کو اعتماد دینا چاہتا ہے اور ساتھ ہی برآمدات اور جی ڈی پی گروتھ میں پائیدار ترقی حاصل کرنا چاہتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہTERFا سکیم کے تحت 150 ارب روپے دیئے جا چکے ہیں اور کل 560 ارب روپے دیے جائیں گے۔مزید برآں، اسٹیٹ بینک ایف پی سی سی آئی کے ساتھ مزید مشاورت کرے گا اور ان کی سفارشات کو مدنظر رکھا جائے گا۔
مزید پڑھیں: پاکستان اسٹاک مارکیٹ میں مندی کا رجحان، 106 پوائنٹس کی کمی