سعودیہ بدل رہا ہے

مقبول خبریں

کالمز

"Conspiracies of the Elites Exposed!"
سرمایہ داروں کی خوشحالی، عوام کی غربت، پاکستان کی معیشت کا کھلا تضاد
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

 سعودی عرب کے 86 سالہ فرمانروا سلمان بن عبدالعزیز کی علالت کے باعث 36 سالہ ولی عہد محمد بن سلمان نے مملکت کی ذمہ داریاں اپنے کندھوں پر اٹھالی ہیں اور یوں ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اپنے بزرگ اور بیمار والد کی زندگی میں ہی سعودی عرب کے بے تاج بادشاہ بن رہے ہیں۔

شہزادہ محمد بن سلمان کے اعتدال پسند اسلام کے چیمپئن کے طور پر کھڑا ہونے کی عالمی سطح پر تعریف کی جا رہی ہے جبکہ شہزادہ محمد جون 2017 میں تخت کے وارث کے طور پر اپنی تقرری کے بعد سے ہی اصل لیڈر تصور کیے جاتے ہیں اور اہم بات یہ ہے کہ ولی عہد محمد بن سلمان کی مصروفیات اورمتوازی کردار کو قومی اور عالمی میڈیا قبول کر رہا ہے جبکہ سعودی حکام کی جانب سے شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی اہم مواقعوں پر عدم موجودگی اور غیر حاضری کی کوئی اہم وجہ سامنے نہیں آسکی۔

مبصرین کے مطابق سعودی عرب کی طرف سے تبلیغی جماعت کودہشت گردقراردینے اور پابندی لگانے پر پاکستان کے مذہبی حلقوں میں شدید تشویش پائی جاتی ہے تاہم قابل ذکر بات تو یہ ہے کہ سعودی عرب میں تبلیغی جماعت کوپہلے بھی آزادانہ طور پر کام کرنے کی اجازت نہیں تھی اور اب اطلاعات یہ بھی ہیں کہ ولی عہدمحمدبن سلمان عالمی طاقتوں کی ایماء پر عالم اسلام کے مرکزسعودی عرب کامذہبی تشخص ختم کرے لبرل اور سیکولر ریاست کی طرف گامزن ہیں۔

سنجیدہ حلقوں کا کہنا ہے کہ سعودی عرب میں ہونیوالی تبدیلیاں ایک مہینے، ایک ہفتے، ایک دن یا ایک رات میں یااچانک نہیں ہوئیں ہیں بلکہ یہ سب تو سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے ویژن 2030کا حصہ ہے اور جب سے وہ ولی عہد بنے ہیں اس طرح کی تبدیلیاں تو تب سے ہی آہستہ آہستہ سعودی ماحول کو حصہ بننا شروع ہو گئی تھیں۔

شنید ہے کہ ابھی اور بہت سی تبدیلیاں ہیں جو کہ آنے والے وقت میں ہم دیکھیں گے کہ کیسے سعودیہ عرب کو بالکل بدل دیا جائے گا۔وہ سعودی عرب جو کبھی مکہ، مدینہ اور اپنی اسلامی روایات کی وجہ سے پہچانا جاتا تھا آنے والے چند سالوں میں اپنی روشن خیالی کی وجہ سے پہچانا جائے گا۔

ایک طرف سعودیہ میں ماحول تبدیل ہورہا ہے تو دوسری جانب سعودی عرب کا سرکاری میڈیا مسلسل اسرائیل کے ساتھ ریاض کے قریبی تعلقات کی وکالت پر مبنی رپورٹس شائع کرکے عوامی رد عمل کا اندازہ لگانے کی کوشش کررہاہے۔

1948 کی جنگ میں سعودیہ نے فلسطینی قوم کے ساتھ شانہ بشانہ جنگ میں حصہ لیا اور بعد ازاں سعودی عرب نے ہزاروں فلسطینیوں کو اپنے ہاں روز گار کی سہولت فراہم کی۔ مصر کے ساتھ مل کر 1967 کی جنگ میں شکست کا توازن بہتر کرنے میں سعودیہ کا تاریخی کردار رہا۔

خطے کی اقوام شاہ فیصل بن عبدالعزیز آل سعود کے اس بیان کو فراموش نہیں کرسکتیں جس میں وہ کہہ گئے تھے کہ وہ القدس کے لیے شہید بھی ہوسکتے ہیںلیکن آج سعودی عرب اسرائیل کوتسلیم کرنے کی طرف پیش قدمی کررہاہے ۔

ایک وقت تھا کہ سعودی عرب پوری دنیامیں مساجدکی تعمیرکرتاتھا، اسلام آبادمیں فیصل مسجد شاہکار نشانی ہے مگراب سعودی حکومت نے فیصلہ کیاہے کہ سینماگھرتعمیرکرے گا ،2030 تک سعودی معیشت میں نئے سنیما گھروں کی وجہ سے روزگار کے تیس ہزار نئے مواقع پیدا ہونگے جبکہ سعودی معیشت میں 90ارب ڈالر کا اضافہ بھی ہوگا۔

سعودی حکمرانوں کی نئی پالیسی پرتنقیدکرنیوالوں کا کہنا ہے کہ ہمیں مذہب کی پہرہ داری پر لگا کرخود سعودیہ روشن خیال ہوگیاہے جبکہ عرب میڈیاکے مطابق شہزادہ محمد بن سلمان کی قیادت میں اب سعودیہ عرب روشن خیالی کے ایک نئے دور میں داخل ہورہا ہے۔

Related Posts