پاکستان جو 1947ء میں معرضِ وجود میں آیا، دلکش خوبصورتی اور حسین مناظر کی جنت نظیر سرزمین ہے جو سیاحت کی دنیا میں کسی پوشیدہ اور نادرونایاب جوہر سے کم نہیں۔
اس ملک میں جہاں بلند و بالا پہاڑی سلسلے، سرسبز وادیاں،ریگزار، تاریخی مقامات اور ثقافتی تنوع سیاحوں کی بڑی تعداد کو آج بھی حیران کردینے کیلئے کافی ہے۔ زیر نظر مضمون میں ہم شعبۂ سیاحت کیلئے پاکستان میں موجود دلکش مقامات کی اہمیت و افادیت پر روشنی ڈالتے ہوئے موجودہ حکومت کو یہ تجاویز پیش کریں گے کہ سیاحت کے شعبے میں پاکستان کس طرح ایک قابل ِ قدر مقام حاصل کرتے ہوئے ملکی معیشت کے استحکام کو دوام بخش سکتا ہے۔
عالمی سطح پر متحدہ عرب امارات کی بات کی جائے تو یہ دنیا کے مقبول ترین سیاحتی مقامات میں سے ایک ہے خلیج میں سیاحت سے متعلقہ تعمیراتی منصوبوں کا تقریباً 86 فیصد بنتا ہے۔ 2018 میں سیاحت سے متعلقہ تعمیراتی منصوبوں کے لیے تقریباً 234 ارب ڈالر مختص کیے گئے تھے۔ ہر سال لگ بھگ 1 کروڑ 20لاکھ سیاح متحدہ عرب امارات کا دورہ کرتے ہیں اور ٹور آپریٹرز انہیں مختلف پیکجز پیش کرتے ہیں۔ سفیر کے طور پر اپنے دور میں، میں نے متحدہ عرب امارات کے سرکردہ ٹور آپریٹرز سے رابطہ کیا اور یہ تجویز دی کہ وہ یو اے ای آنے والے سیاحوں کو گلگت اور سکردو کے لیے ”سٹیلائٹ سیاحت“ کا ایک توسیعی پیکج متعارف کرائیں۔ ”سیٹیلائٹ سیاحت“ کے تصور میں مندرجہ ذیل نکات مدِ نظر رکھے جانے چاہئیں:
الف۔ سیاحوں کو تقریباً تین گھنٹے کی چارٹرڈ پرواز کے ذریعے یو اے ای سے براہ راست گلگت یا سکردو لے جایا جائے گا۔
ب۔ وہاں سے اعلیٰ درجے کی مقامی ٹرانسپورٹ کی سہولت سیاحوں کو مفت ہوٹلوں تک لے جائے گی کیونکہ اخراجات پیکیج میں شامل ہوں گے۔
ج۔ اسی دن یا اگلے دن، جیسا کہ مناسب ہو انہیں سائٹس پر لے جایا جائے گا۔
د۔ اچھے تربیت یافتہ ٹورسٹ گائیڈ ہر طرح سے مفت دستیاب کرائے جائیں گے۔
ہ۔ سفر کی تکمیل کے بعد سیاحوں کو چارٹرڈ فلائٹ کے ذریعے گلگت یا سکردو سے براہ راست متحدہ عرب امارات واپس لے جایا جائے گا۔
اس خیال کو ٹورسٹ آپریٹرز نے سراہا اور انہیں یقین تھا کہ یہ ایک کامیاب پروگرام ہوگا، اگر حکومتِ پاکستان مندرجہ ذیل اقدامات اٹھائے:
پہلا نکتہ یہ کہ بینرز آویزاں کیے جائیں جن پر ”سیٹیلائٹ ٹور ٹو گلگت اور سکردو“ تحریر ہو جو تمام ٹور آپریٹرز کو مفت فراہم کیا جائے تاکہ وہ ڈسپلے کر سکیں۔
دوسرا نکتہ یہ کہ اس تصور کی حمایت میں پمفلٹ اور کتابچے جو گلگت اور سکردو کے آس پاس کے اہم مقامات کی مختلف خصوصیات کو اجاگر کرتے ہوں، فراہم کیے جائیں۔
تیسرا یہ کہ مقامی سطح پر بھی میڈیا مہم چلائی جائے۔
چوتھا یہ کہ ان سیاحوں کے لیے ہوٹل میں سستی رہائش کی پیشکش کی جائے جو آزادانہ اور طویل مدت کے لیے سیاحت کرنا چاہتے ہوں۔
پانچواں نکتہ یہ کہ ہوائی جہاز سے مکمل راؤنڈ ٹرپ کے لیے کرائے بھی کم رکھے جائیں۔
چھٹا نکتہ یہ کہ دونوں ہوائی اڈوں پر سیاحوں کے لیے وی آئی پی امیگریشن اور کسٹمز کی سہولیات فراہم کی جائیں۔
ساتواں نکتہ یہ کہ عالمی مصدقہ سیکورٹی ماہرین کی طرف سے مناسب حفاظتی اقدامات اور سیکورٹی بریفنگ دی جائے۔
توقع یہ ہے کہ اس آئیڈیا کی کامیابی سے پاکستان میں سیاحت کو فروغ ملے گا جس سے نہ صرف ملک کیلئے زرمبادلہ کمانے میں مدد ملے گی بلکہ ہمارے نوجوانوں کے لیے ضروری روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔ یہ ماڈل جی بی میں لاگو ہونے کے بعد صحرائی سفاری سیٹلائٹ ٹورز کی صورت میں تھر کے صحراؤں میں بھی لاگو کیا جا سکتا ہے۔
دنیا کے دلکش ترین پہاڑی سلسلے بشمول ہمالیہ اور قراقرم پاکستان میں موجود ہیں جن میں شامل کے۔ٹودنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی ہے جس کی طرف دنیا بھر کے کوہ پیما اور مہم جوخواتین و حضرات کھنچے چلے آتے ہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سیاحت کیلئے انفرا سٹرکچر کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کیا جاسکتا مگر موجودہ دور میں ائیر بی این بی جیسے پلیٹ فارم اور مقامی انتظامیہ کی معاونت سے لوگوں کے اپنے گھروں میں فاضل جگہ سیاحوں کی رہائش کیلئے استعمال میں لائی جاسکتی ہے جو کہ نہ صرف ملک میں ڈالر کی آمدن کو بڑھائے گی بلکہ ان دور افتادہ علاقوں کے باشندوں کی معاشی فلاح وبہبود کیلئے بھی ممدومعاون ثابت ہوگی۔ اضافی طور پر اگر مہمات کیلئے بنیادی سہولت دی جائے تو ٹریکنگ اور کوہ پیمائی کا شعبہ ملک میں وسیع پیمانے پر منافع بخش آمدن لاسکتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان آج سے 76برس قبل روئے زمین پر ایک اہم مسلمان ملک بن کر ابھرا تاہم یہاں کی تہذیب و ثقافت کی تاریخ ہزاروں برسوں پر محیط ہے اور ہمارا ثقافتی ورثہ بیش بہا ہے، وادئ سندھ اور گندھارا جیسی قدیم تہذیبوں ، موہنجو دڑو اور ٹیکسلا جیسے آثارِ قدیمہ سیاحوں اور بالخصوص ماہرین آثارِ قدیمہ کیلئے کسی خزانےسے کم نہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ ان تاریخی مقامات کے تحفظ اور فروغ کیلئے یونیسکو جیسے بین الاقوامی اداروں کی معاونت سے سیاحوں کیلئے ایسے مقامات قابل رسائی اور دیدہ زیب بنائے ۔
اگر ہم پاکستان کے بڑے شہروں مثلاً لاہور، کراچی اور اسلام آباد کی بات کریں تو یہ شہر جدت و روایت کا انوکھا امتزاج پیش کرتے ہیں جس میں لاہور کے متحرک اسٹریٹ فوڈ کے مناظر، کراچی کی شاندار ساحلی پٹی جہاں نایاب اونٹوں اور دنیا میں ناپید کچھووں کی بھرمار ہے جسے دیکھنے کی سیاح تمنا رکھتے ہیں ۔ سیاحوں کو راغب کرنے کیلئے حکومت کو چاہئے کہ ثقافتی تہواروں اور تقریبات کے انتظام و انصرام کو ترویج دے تاکہ یہ تمام شہر بھی دنیا کے دیگر سیاحتی کشش کے حامل شہروں کی فہرست میں شامل ہوجائیں۔
بلاشبہ پاکستانی قوم اپنی مہمان نوازی اور سیاحوں کا کھلے دل سے استقبال کرنے کیلئے برادرانہ جذبات سے لبریز ہے جبکہ حکومت سیاحت کو فروغ دینے کیلئے وہ ماحول فراہم کرسکتی ہے جس میں حفاظتی سہولیات ایک اہم جزو ہیں جبکہ عموماً بیرونِ ملک سے آنے والے سیاح بہتر حفاظتی انتظامات، آرام دہ رہائش اور لذیذ کھانوں کے دلدادہ ہوتے ہیں جو پاکستان میں وافر مقدار میں موجود ہیں۔
ماضی میں اگر ہم 2013ء کی بات کریں تو 5 لاکھ سیاح پاکستان آئے جس سے پاکستان کو 298 ملین ڈالر کا زرِ مبادلہ حاصل ہوا جس کے بعد 2018ء میں یہ تعداد بڑھی ، 2025 تک کا منصوبہ جس میں 3.5ارب ڈالر آمدن کا تخمینہ لگایاگیا ہے، یہ آمدن حکومت کی ذرا سی دلچسپی سے اس سے کہیں زیادہ ہوسکتی ہے تاکہ ملکی معیشت کیلئے خوشحالی کی طرف ایک اہم اور خوشنما ابتدا ثابت ہوسکے۔
وادئ سوات میں وائٹ واٹر رافٹنگ سے لے کر سندھ اور بلوچستان کے ریگزاروں میں سنسنی خیز جیپ سفاری تک پاکستان میں سیاحوں کی دلچسپی کیلئے مہم جوئی کے تجربات کا ایک سلسلہ موجود ہے۔ حکومت ایسے علاقوں میں سیاحتی سرگرمیوں کو فروغ دینے کیلئے ایڈونچر ٹور ازم کمپنیوں کے ساتھ روابط کو یقینی بنائے تو سیاحت کے شعبے سے خاطرخواہ حد تک مستفید ہوا جاسکتا ہے۔
یہی نہیں بلکہ پاکستان میں مذہبی سیر و سیاحت کو بھی فروغ دیا جاسکتا ہے کیونکہ لاہور کی بادشاہی مسجد دنیا بھر کے مسلمان سیاحوں کیلئے جبکہ سکھ یاتریوں کیلئے کرتارپور راہداری موجود ہے۔سندھ میں بے شمار ایسے مقامات اور مندر موجود ہیں جو مذہبی سیر و سیاحت کو بے مثال فروغ دے سکتے ہیں۔ ہندومت کے ماننے والوں کیلئے کٹاس راج اورشری ورن دیو کا مندر جبکہ بدھ سیاحوں کیلئے تخت بھائی اور ٹیکسلا جیسے مقامات موجود ہیں جس سے بین المذاہب ہم آہنگی اور افہام و تفہیم کے ساتھ ساتھ ملک میں ڈالر لانے کیلئے قلیل مدتی راستہ بھی مہیا ہوسکتا ہے۔
پاکستان میں جنگلی حیات کی موجودگی بھی سیاحوں کیلئے پرکشش ہے ، مثال کے طور پر چترال گول نیشنل پارک، خنجراب نیشنل پارک جہاں نایاب برفانی چیتا اور دنیا کے چند انمول چیتوں کا بسیرا ہے۔ ایسی جنگلی حیات سے بھرپور مقامات سے پائیدار ماحولیاتی سیاحت کو فروغ دے کر سیاحوں کو نہ صرف بہتر سیر و تفریح کی جانب راغب کیا جاسکتا ہے بلکہ ان قدرتی خزانوں کو محفوظ رکھنے میں مدد بھی دی جاسکتی ہے۔
آج کے ڈیجیٹل دور میں مؤثر آن لائن پروموشن کے ذریعے بھی سیاحت کے فروغ کو یقینی بنایا جاسکتا ہے جس میں سیاحتی مقامات کی نمائش، سفری معلومات کی فراہمی اور ممکنہ زائرین کے ساتھ بات چیت کی حوصلہ افزائی کیلئے ویب سائٹس اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا استعمال شامل ہے۔
حکومت پاکستان موجودہ انفراسٹرکچر، ہوائی اڈوں اور ریل گاڑیوں کا استعمال کرتے ہوئے نہ صرف سیاحوں کیلئے سفر آسان بناسکتی ہے بلکہ مقامی معاشرے اور کاروباری افراد کو بھی فائدہ پہنچا سکتی ہے جس سے ملکی معیشت کی ابتر حالت کو ہفتوں اور مہینوں میں بہتر بنایا جاسکتا ہے تاکہ ملک میں ناپید ڈالر کے بحران سے باہر نکلا جاسکے۔