سندھ کی معروف کاروباری شخصیت سمیر میر شیخ کا سیاسی سفر اور ذاتی زندگی کا احوال

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

پی ٹی آئی رہنما سمیر میر شیخ کا سیاسی سفر اور ذاتی زندگی کا احوال
پی ٹی آئی رہنما سمیر میر شیخ کا سیاسی سفر اور ذاتی زندگی کا احوال

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پاکستان تحریکِ انصاف ملک کی حکمراں سیاسی جماعت ہے اور سمیر میر شیخ سندھ کی معروف کاروباری و سیاسی شخصیت ہیں جنہوں نے پی ٹی آئی کے ویژن کو اپنی عملی زندگی کا حصہ بنایا۔

معزز و محترم پی ٹی آئی رہنما سمیر میر شیخ کی ذاتی اور سیاسی زندگی انسانی فلاح و بہبود اور عوامی خدمت سے عبارت ہے جس کی تفصیل جاننے کیلئے ایم ایم نیوز نے ان سے خصوصی گفتگو کی اور آج اِس گفتگو کا احوال نذرِ قارئین ہے۔ 

ایم ایم نیور: آپ نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز کب، کیوں اور کس جماعت سے کیا؟
سمیرمیر شیخ: ہم لوگ شروع سے پیپلزپارٹی سے منسلک تھے، میرے والد محترمہ بینظیر بھٹو کے وکیل رہے، بیگم نصرت بھٹو کے ساتھ رہے، ایم آرڈی کے وقت بھی میرے والد پی پی سے وابستہ رہے۔میرا تعلق ایک مڈل کلاس فیملی سے ہے اور پاکستان میں سیاست کو پیسے کا کھیل سمجھا جاتا ہے لیکن ہماری سیاست کا مقصد عوام کی خدمت کرنا تھا اور جب میں تعلیم مکمل کرکے واپس آیا اور اپنا کاروبار شروع کیا تومیں نے عملی سیاست میں 8سال پہلے قدم رکھا اور بلاول بھٹو زرداری کے نوجوان ہونے کی وجہ سے مجھے لگا کہ شاید ملک میں کچھ تبدیلیاں لائیں گے لیکن اس کے بالکل برعکس ہوا اور مجھے سسٹم کا حصہ بنانے کی کوشش کی گئی لیکن میری تربیت ایسی نہیں تھی کہ میں اس سسٹم کا حصہ بن سکتا اس لئے دلبرداشتہ ہوکر میں نے 2019ء میں پیپلزپارٹی کو خیربا د کہہ دیااور پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی اور مجھے افسوس ہے کہ میں نے اپنی زندگی کے قیمتی سال پیپلزپارٹی کیلئے برباد کردیئے۔

ایم ایم نیور:پی ٹی آئی میں کام کا کتنا موقع ملا اور کیا کیا اقدامات اٹھائے۔
سمیرمیر شیخ: پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت کے بعد مجھے احساس ہوا کہ مجھے پہلے بہت اس جماعت میں آنا چاہیے تھا لیکن دیر آید درست آید، ہم نے سندھ کے دورے کئے اور لوگوں کے مسائل اجاگر کرنے کے علاوہ پیپلزپارٹی کی کرپشن کو بے نقاب کیا اور وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے حلقے کے مسائل بھی عوام کے سامنے پیش کئے اور لوگوں کو پیپلزپارٹی کا اصلی چہرہ دکھایا۔

ایم ایم نیور:کورونا اور سیلاب میں سندھ میں کیا خدمات انجام دیں ؟
سمیرمیر شیخ: کورونا کی وباء کے دوران ہم نے پورے سندھ میں بلاتفریق عوامی فلاح کیلئے کام کیا اور اس کے بعد سیلاب کی صورتحال پیدا ہوگئی جس سے لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ، ہم نے سیلاب متاثرین کو راشن، ٹینٹ، مچھردانیاں اور دیگر سامان مہیا کیااور پی ٹی آئی کے درست اور بروقت اقدامات کی وجہ سے لوگوں کو فوری ریلیف فراہم کیا گیا اور آج سندھ کے پسماندہ علاقوں میں بھی لوگ پی ٹی آئی کی خدمات کے معترف ہیں۔

ایم ایم نیور:کورونا کے دوران اپنے خاندان کیسے وقت دیتے تھے؟
سمیرمیر شیخ: کورونا کی وباء کے دوران ہم نے پورے سندھ کے دورے کئے اور بطور سیاسی ورکر ہم دن بھر لوگوں سے ملتے اور ان کے مسائل حل کرنے کی کوشش کرتے تھے لیکن ہمارا بھی خاندان ہے اور کچھ ذمہ داریاں بھی ہیں اس لئے میں کسی بھی دورے سے آکر اپنی فیملی سے الگ تھلگ رہتا تھا یہ بہت تکلیف دہ وقت تھا لیکن عوام کی بہتری کیلئے ہم نے اپنی ذاتی خوشیوں کو قربان کرکے عوام کی خدمت کو ترجیح دی۔

ایم ایم نیور:سیف اللہ ابڑو کو سینیٹ کا ٹکٹ کس حد تک درست فیصلہ تھا؟
سمیرمیر شیخ: پاکستان تحریک انصاف نے ملک میں سیاست کا نقشہ بدل دیا ہے، پی ٹی آئی نے چھوٹے اور پسماندہ علاقوں سے لوگوں کو اعلیٰ ایوانوں میں بھیجا ہے اور سیف اللہ ابڑو اس کی ایک اعلیٰ مثال ہیں۔ وقت ثابت کریگا کہ سیف اللہ ابڑو کو سینیٹ بھیجنے کا فیصلہ واقعی دانش مندانہ اقدام تھا۔

ایم ایم نیور: کرپشن بے نقاب ہونے کے باوجود پی ٹی آئی سندھ میں پیپلز پارٹی کا مقابلہ کیوں نہیں کرپارہی ؟
سمیرمیر شیخ: سچ تو یہ ہے کہ پیپلزپارٹی نے عوام کو اتنا دکھ دیا ہے اور اس طرح حقوق دبائے ہیں کہ لوگ اپنے حقوق بھول ہی گئے ہیں اور پیپلزپارٹی کی جیت کی بنیادی وجہ کرپشن سے کمایا گیاپیسہ ہے ، پی ٹی آئی کے پاس جذبہ اور خلوص تو ہے لیکن پیسہ نہیں ہے۔ یہی بنیادی فرق ہے اور سندھ کے غریب، مجبور اور بے بس انسانوں کو ڈرا دھمکاکر ان سے ووٹ لیا جاتاہے جو پیپلزپارٹی تو کرسکتی ہے لیکن پی ٹی آئی نہیں۔

ایم ایم نیور:پی ٹی آئی کو سندھ میں کامیابی کیلئے کیا اقدامات کرنے چاہئیں؟
سمیرمیر شیخ: پاکستان تحریک انصاف کو سندھ میں جارحانہ رویہ اپنانے کی ضرورت ہے اور نمایاں شخصیات کوپی ٹی آئی کے قافلے میں شامل کرنا ہوگا اور نچلی سطح پر لوگوں کے ساتھ روابط کرکے ان کو پیپلزپارٹی کے ظلم چھٹکارہ دلانے کیلئے اپنا پیغام لوگوں تک پہنچانا ہوگا۔

ایم ایم نیور: آپ کس جرم میں اور کہاں سے گرفتار کیاگیا؟
سمیرمیر شیخ: سندھ میں قانون نام کی کوئی چیز نہیں ہے،میری مثال سب کے سامنے ہے کہ مجھے بھی جھوٹے مقدمات میں پھنسا دیا گیا اور دلچسپ بات تو یہ ہے کہ پورا پاکستان جانتا ہے کہ میں اس وقت موقع پر موجود ہی نہیں تھا۔ ایک نمایاں شخصیت ہونے کے باوجود مجھے جھوٹے مقدمات میں پھنسادیا گیا تو سوچیں عام آدمی کیساتھ کیا کرتے ہونگے؟ میرے اوپر قتل ، اقدام قتل، اسلحہ اوردہشت گردی کا کیس بناکر میری پوری زندگی کو داغدار کردیا گیا اور مجھے سندھ ہائیکورٹ کے دروازے سے گرفتار کرکے 5 گھنٹے بعد ملیر سے میری گرفتاری ظاہر کی گئی۔

ایم ایم نیور:سندھ پولیس کو کوئی پیغام دینا چاہیں گے ؟
سمیرمیر شیخ: سندھ پولیس کو میں یہ کہنا چاہوں گا کہ اپنی وردی کی لاج رکھیں ، یہ شہداء کی وردی ہےاور میری کئی شہداء کے ساتھ اور پولیس کے درجنوں ایونٹس میں ان کے ساتھ تصاویر ہیں۔ ہم نے ہمیشہ سندھ پولیس کیلئے آواز اٹھائی ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ پیپلزپارٹی کی ایماء پر چند کالی بھیڑیں پورے محکمے کیلئے بدنامی کا باعث بن رہی ہیں اور پیپلزپارٹی کی نوکری کرنے والے اور کرپشن اور لوٹ مار کے مرتکب افسران کو محکمہ پولیس سے نکال دینا چاہیے لیکن آئی جی سندھ پولیس کے محکمہ سے کرپٹ اہلکاروں کیخلاف کارروائی کرنے سے قاصر ہیں۔

ایم ایم نیور:وزیرِ اعظم عمران خان نے اعتماد کا ووٹ حاصل کر لیا، آپ کیا سمجھتے ہیں اس سے پی ٹی آئی کی مشکلات میں کمی ہوگی یا اضافہ؟
سمیرمیر شیخ: یہ پاکستان کی بہت بڑی جیت ہوئی کہ عمران خان پہلے سے زیادہ ووٹ لے کر دوسری بار وزیرِ اعظم بن گئے۔ چور  لٹیروں کو ہمارا پیغام ہے کہ آپ کو این آر او نہیں ملے گا۔ ان کا اگلا اسٹاپ اڈیالہ جیل ہوگا۔ میرا سندھ حکومت کو مشورہ ہے کہ کچھ نئی موبائلز خرید لیں کیونکہ بڑے بڑے رہنما جیل جانے والے ہیں۔ سب چوروں کو سخت سے سخت سزا ملے گی۔ 

ایم ایم نیور:پی ٹی آئی کے 5 سال مکمل ہونے کے بعد آئندہ انتخابات کہاں سے لڑنا چاہیں گے؟
سمیرمیر شیخ: میرے پارٹی کے دوستوں کو پریشان نہ کریں۔ جہاں سے میری قیادت چاہے گی، وہیں سے الیکشن لڑوں گا۔ میری کوشش ہوگی کہ لاڑکانہ سے لڑوں یا بلاول بھٹو کے مقابلے  پر لڑوں۔

ایم ایم نیور: آپ کے بعض ناراض پارٹی کارکنان کا سوال ہے کہ کراچی کے 3 کروڑ عوام ہوتے ہوئے آپ پی ایس 88 کیلئے لاڑکانہ سے امیدوار کیوں لائے؟ تحریکِ انصاف نے یہ قدم کیوں اٹھایا؟
سمیرمیر شیخ: جان شیر جونیجو ملیر کینٹ میں ہی رہتے ہیں اور وہیں سے ان کا تعلق ہے۔ جب میں پی ٹی آئی میں آیا تو کچھ مقامات پر مجھے بھی پریشانی ہوئی کہ یہ کیسے عہدیدار ہیں جو کھل کر تنقید کرتے ہیں۔ آہستہ آہستہ مجھے سمجھ میں آیا کہ یہی جمہوریت ہے اور تنقید کرنا پارٹی کارکنان کا حق ہے کیونکہ وہ عمران خان کے ٹائیگرز ہیں۔ پی پی پی میں تنقید کی جائے تو دوسرے دن لاش ملتی ہے۔ ن لیگ پر تنقید کی جائے تو دوسرے دن فارغ کردیا جاتا ہے۔ تحریکِ انصاف واحد جمہوری پارٹی ہے جو خاندان کی طرح ہے اور سب کی اپنی رائے ہوتی ہے۔ تنقید سب کا حق ہے جو جمہوریت کا حسن بھی ہے۔ جان شیر جونیجو پر بھی تنقید کی گئی اور وہ انتخاب گزر گیا۔ اب ہمیں آئندہ الیکشن کی تیاری کرنی ہے۔ 

ایم ایم نیور: کراچی میں ایک اور الیکشن ہونا ہے جس کی آپ نے تیاری کرنی ہے۔ 
سمیرمیر شیخ: ایک تو فیصل واؤڈا کی نشست ہے اور ایک اور نشست پر بھی انتخاب ہوگا۔ ہمیں پچھلی بار سے زیادہ ووٹ لینے کی توقع ہے۔ جو ہوا اچھا ہوا۔ پیپلز پارٹی والے عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ سمجھ رہے تھے کہ مجھے خاموش کر دیں گے۔ اس کا الٹ ہوا۔ میں سرخرو ہوا، عوام کو ان کا اصل چہرہ پتہ چلا۔ حلیم عادل شیخ کے ساتھ جو ہوا، اس سے ان کا کرپٹ چہرہ بے نقاب ہوا۔ ورکرز میں بہترین جوش و جذبہ پایا جاتا ہے۔

ایم ایم نیور: اگر ہم یہ کہیں کہ عمران خان کو 3 الفاظ میں بیان کریں، تو آپ کون سے تین الفاظ چنیں گے؟
سمیرمیر شیخ: میں وزیرِ اعظم عمران خان کیلئے ایماندار، سچا رہنما اور بے باک قائد کے الفاظ استعمال کرنا چاہوں گا۔ 

ایم ایم نیور: چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری اور ن لیگ کی نائب صدر مریم نواز کو اگر 3 الفاظ میں بیان کیا جائے تو وہ کیا الفاظ ہوں گے؟
سمیرمیر شیخ: بلاول زرداری کیلئے ناسمجھ، اقرباء پرور اور بد دیانت سیاستدان کے ہوسکتے ہیں۔ مریم نواز کیلئے تینوں الفاظ فیک، فیک، فیک ہیں یعنی وہ ایک جعلی سیاستدان کے سوا کچھ نہیں۔ 

ایم ایم نیور: آئندہ انتخابات میں کراچی کو کہاں دیکھتے ہیں؟ کیا کراچی پی ٹی آئی کو اسی طرح ووٹ دے گا؟
سمیرمیر شیخ: کراچی کے عوام کو ہی یہ فیصلہ کرنا ہے کہ کیا وہ واقعی کوئی تبدیلی لانا چاہتے ہیں؟ بدقسمتی سے جو تبدیلی پورے ملک میں آئی وہ سندھ میں نہیں آسکی۔ پی ٹی آئی کے اراکینِ اسمبلی عوام کی کم نشستیں ہونے کے باعث زیادہ خدمت نہیں کرپا رہے۔ ہم پورے سندھ سے جیتیں تو اصل تبدیلی یہاں بھی لاسکیں۔ ایک طرف سے ہمیں ایک پارٹی بلیک میل کرتی ہے، دوسری جانب سے دوسری کرتی ہے۔ پیپلز پارٹی نے 18ویں ترمیم کی تلوار ہمارے سر پر لٹکائی ہوئی ہے۔ تحریکِ انصاف کے اراکینِ اسمبلی کم فنڈز میں بھی اچھا کام کر رہے تھے۔ اب انہیں فنڈز ملیں گے تو اور اچھا کام کریں گے۔ 

ایم ایم نیور: آپ کے تحریکِ انصاف میں سب سے اچھے تعلقات کس قائد یا لیڈرشپ کے ساتھ ہیں؟
سمیرمیر شیخ: میں تو ایک چھوٹا سا کارکن ہوں۔ مجھے لیڈر سمجھنا کارکنان کا بڑا پن ہے۔ میری پوری کوشش رہی ہے کہ میں کسی گروہ یا لابی کا حصہ نہ بنوں اور سب کے ساتھ یکساں کام کروں۔ کچھ لوگ میرے ساتھ کام نہیں کرنا چاہتے، وہ ان کا مسئلہ ہے۔ میں نے چھوٹوں اور بڑوں کو یکساں عزت دی ہے اور میں اسی طرح چلتا رہوں گا۔ میں اپنی محنت کرر ہا ہوں، میں کسی عہدے یا نشست کا مطالبہ نہیں کرتا۔ ہم سب تحریکِ انصاف کو مضبوط کرنے کیلئے کام کر رہے ہیں۔

ایم ایم نیور: آئندہ 10 برس میں آپ اپنے آپ کو کہاں دیکھتے ہیں؟ کیا آپ وزیرِ اعظم بننا چاہیں گے؟
سمیرمیر شیخ: وزیرِ اعظم تو ہمیشہ عمران خان رہیں گے، تاہم آئندہ 10 برس میں وزیرِ اعلیٰ سندھ کے عہدے تک پہنچنے کیلئے سیاسی جدوجہد کرسکتا ہوں جبکہ وزیرِ اعظم عمران خان اور تحریکِ انصاف کی اعلیٰ قیادت کسی بھی عہدے کیلئے میری خدمات حاصل کرسکتی ہے۔

Related Posts