اسلامی جمہوریہ پاکستان اور روس کے تعلقات کو عالمی برادری ایک الگ نظر سے دیکھتی ہے کیونکہ جب کبھی پاکستان روس کے ساتھ تعلقات استوار کرتا ہے تو امریکا سے اس کے تعلقات خراب ہونے لگتے ہیں اور اگر پاکستان اس کے برعکس کرے تو روس سے تعلقات پر ضرب پڑتی ہے۔
روسی وزیرِ خارجہ سرگئی لاؤروف آج 2 روزہ دورے کیلئے پاکستان پہنچ رہے ہیں جہاں وزیرِ اعظم عمران خان، پاکستانی وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقاتیں ہوں گی۔ آئیے پاک روس تعلقات اور روسی وزیرِ خارجہ کے دورۂ پاکستان سے متعلق مختلف حقائق کا جائزہ لیتے ہیں۔
افغان امن عمل اور پاک روس تعلقات
موجودہ دور میں ہم ایک اصطلاح سن رہے ہیں جسے افغان امن عمل کہا جاتا ہے جس کا مطلب پاکستان کے ہمسایہ اور برادر اسلامی ملک افغانستان میں قیامِ امن ہے جو طویل عرصے سے محض ایک خواب نظر آتا ہے۔
امریکا کی فوج کے افغانستان میں قیام کوکم و بیش 20 برس ہوچکے ہیں جسے افغان طالبان ملک میں خانہ جنگی اور امن کی تباہی کی سب سے بڑی وجہ قرار دیتے ہیں اور افغانستان میں بھارت کا عمل دخل بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔
یہاں افغان امن عمل کا ذکر اس لیے کیا گیا کیونکہ امریکا سے قبل روسی فوج نے افغانستان میں قدم جمانے کی کوشش کی جس میں درپردہ پاکستان نے اس کی مخالفت کی اور پھر سوویت یونین روس بکھر کر رہ گیا۔
روس کے بکھرنے کے بعد سے پاک روس تعلقات سرد مہری کا شکار رہے جن کی وجہ غالباً یہ تھی کہ روس اپنی تباہی کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہراتا تھا۔ تاہم حالیہ کچھ عرصے میں یہ تعلقات بہتری کی طرف آئے ہیں۔
پاک روس تعلقات کی مختصر تاریخ
سن 2003ء میں جنرل مشرف ماسکو کے دورے پر پہنچے اور پھر 2008ء میں روس کی جانب سے وزیرِ اعظم کی سطح کا وفد پاکستان آیا تاہم ان دو سفارتی دوروں میں کوئی خاص پیشرفت نہ ہوسکی۔
تین سال بعد 2011ء میں صدر آصف زرداری اور روسی قیادت کی ملاقاتیں ہوئیں جس کے بعد صدر آصف زرداری ماسکو کے دورے پر بھی گئے۔ روسی وزیرِ خارجہ لاؤروف نے 2012ء میں پاکستان کا دورہ کیا اور 2014ء میں روسی وزیرِ دفاع پاکستان آئے۔
دورے کے نتیجے میں روس نے پاکستان پر اسلحے کی فروخت سے متعلق پابندی ختم کردی اور 4 ایم آئی 35 ہیلی کاپٹرز دینے سے متعلق فیصلہ کیا۔ ایک معاہدہ یہ بھی ہوا کہ کراچی سے لاہور تک 1 اعشاریہ 7 ارب ڈالرز کی لاگت سے گیس پائپ لائن بچھائی جائے گی۔
داعش کے افغانستان میں ابھرنے سے خطے میں دہشت گردی میں اضافہ ہورہا ہے جس کے پیشِ نظر پاکستان اور روس کی قربت دونوں ہی ممالک کے مفاد میں ہے۔ روس پاکستان کے افغان امن عمل میں کردار سے خوب واقف ہے اور اسے اپنے حق میں استعمال کرنا چاہتا ہے۔
سن 2017ء میں پاکستان اور روس کے مابین فوجی سطح پر تکنیکی تعاون کا معاہدہ ہوا۔ 2018ء میں بحری فوج کے باہمی تعاون کے معاہدے پر دستخط کیے گئے۔ 2002ء میں قائم کردہ رشیا پاکستان جوائنٹ ورکنگ گروپ برائے انسدادِ دہشت گردی بھی ایک اہم پیشرفت ہے جسے 2014ء میں ازسرنو فعال کیا گیا۔
دو طرفہ تجارت کی صورتحال
آج سے 3 سال قبل 2018ء میں پاک روس دو طرفہ تجارت کا حجم 80 کروڑ ڈالر ہوگیا جو گزشتہ برس یعنی 2017ء میں محض 60 کروڑ ڈالر تھا۔ اسی برس دسمبر میں روس کی جانب سے پاکستان کو تعاون کی یقین دہانی کرائی گئی۔
دسمبر 2019ء میں وزیرِ اقتصادی امور حماد اظہر (جو آج کل وزیرِ خزانہ بھی ہیں) نے کہا کہ پاک روس تجارت کے فروغ سے دو طرفہ تعلقات میں استحکام پیدا ہوگا۔
وزیرِ اقتصادی امور حماد اظہر نے کہا کہ روس پاکستان اسٹیل ملز کی بحالی کیلئے تعاون کی پیشکش کرچکا ہے۔ روسی وزیرِ تجارت ڈینس مانتروف وفد کے ہمراہ پاکستان میں سرمایہ کاری اور بین الحکومتی کمیشن کے چھٹے اجلاس میں شریک ہوئے تھے۔
جنوری 2021ء میں اے پی پی کی ایک رپورٹ کے مطابق روس کو پاکستانی برآمدات میں 7 اعشاریہ 24 فیصد اور درآمدات میں 221 اعشاریہ 95 فیصد کا نمایاں اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
دورۂ پاکستان اور روسی وزیرِ خارجہ
دفترِ خارجہ کے بیان کے مطابق پاکستانی اور روسی وزرائے خارجہ کی آج ملاقات ہوگی جس کے دوران دونوں ممالک اقتصادی تعاون، انسدادِ دہشت گردی اور کورونا وائرس کے خلاف سماجی و اقتصادی تعاون پر گفتگو کریں گے۔
نو سال کے بعد روسی وزیرِخارجہ پاکستان کا پہلا دورہ کر رہے ہیں جس کے دوران دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ وفود کی سطح پر بھی گفتگو کریں گے۔ دونوں ممالک کے مابین تجارت اور تعاون میں اضافے کی بھرپور توقع کی جارہی ہے۔
شاہ محمود قریشی کا بیان
پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ روس خطے کا انتہائی اہم ملک ہے اور وہ ہمارے ہمسایہ ملک بھارت کو افغانستان میں مثبت کردار ادا کرنے کیلئے تیار کرسکتا ہے۔ روسی وزیرِ خارجہ کے دورے سے دو طرفہ تعلقات کا نیا دور شروع ہوگا۔
ہمسایہ ملک میں امن کے حوالے سے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان اور روس مل کر افغان امن عمل میں کردار ادا کر رہے ہیں۔ 18 مارچ کو پاکستان ماسکو میں سہ فریقی اجلاس میں شریک ہوا۔
انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے باہمی تعلقات میں بہتری دیکھی جارہی ہے، دونوں ممالک ایک دوسرے سے تعاون چاہتے ہیں۔ پاکستان نارتھ ساؤتھ گیس پائپ لائن منصوبے کو آگے بڑھانا چاہتا ہے۔ آٹے کا بحران پیدا ہونے پرروس نے بروقت گندم مہیا کی۔
خطے میں پاکستان کی جغرافیائی اہمیت اور روس سے تعلقات کا معاملہ
جنوبی ایشیاء میں پاکستان ایک الگ جغرافیائی اہمیت کا حامل ملک ہے جس کے باعث ہم دیگر ممالک سے ممتاز حیثیت رکھتے ہیں۔ امریکا، روس اور برطانیہ سمیت بڑے اور اہم ممالک ہر وقت پاکستان میں ہونے والی پیشرفت اور اقدامات کا جائزہ لیتے رہتے ہیں۔
اپنی جغرافیائی اہمیت کے پیشِ نظر پاکستان افغان امن عمل اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ایک اہم کردار بن چکا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پاک روس تعلقات میں بہتری سے معاشی معاملات اور اقتصادی تعاون کو فروغ دیا جائے۔