یورپ میں بڑھتا ہوا اسلامو فوبیا

مقبول خبریں

کالمز

Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟
Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

دنیا بھر میں اسلامو فوبیا اور نسل پرستی میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے، آزادی اظہار رائے کی آڑ میں بہت سے ممالک نے اربوں مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہے اور مذہبی منافرت میں اضافہ کیا ہے۔

بدنام زمانہ فرانسیسی میگزین چارلی ہیبڈو میں گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کی گئی ہے، یاد رہے کہ ان ہی وجوہات کی بناء پر 2015میں اس میگزین کے صحافتی عملے پر حملہ بھی ہوا تھا جس کے نتیجے میں میگزین کے 15کارکن ہلاک ہوگئے تھے، اس کے باوجود اس میگزین نے دوبارہ سے گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کی ہے، فرانسیسی صدر نے ان خاکوں کے شائع ہونے کے بعد اس کی مذمت بھی نہیں کی،یہ بات فرانسیسی مسلمانوں کو ناگوار گزری ہے۔

ناروے اور سویڈن میں قرآن مجید کو نذر آتش کرنے کے متعدد واقعات بھی سامنے آئے ہیں۔ ان ممالک کو دنیا کا سب سے زیادہ آزاد خیال کہا جاتا ہے، لیکن یہ ممالک دائیں بازو کے کارکنوں کا گڑھ بن چکے ہیں جو سیاسی مقاصد کے لئے اسلامو فوبیا پھیلا رہے ہیں اور ووٹ حاصل کررہے ہیں، جس کے نتیجے میں مالمو سمیت متعدد سویڈش شہروں اور اسٹاک ہوم میں فسادات بھی ہوئے، دوسری جانب ناروے میں بھی ایسے ہی واقعات دیکھنے میں آئے۔

غیر مسلم ممالک کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس معاملے میں مسلم دنیا کی آواز کو خاموش نہیں کرایا جاسکتا، توہین آمیز مواد کی اشاعت کے خلاف مسلم ممالک کی جانب سے شدید مذمت کی گئی ہے، پاکستان وہ واحد ملک ہے جس کی جانب سے یہ بیان جاری کیا گیا ہے کہ آزادی اظہار رائے کی آڑ میں مسلمانوں کے جذبات مجروح کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔

ترک صدر اردگان نے بھی توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کی شدید مذمت کی ہے، ان کے علاوہ کسی مسلم ملک کے سربراہ کی جانب سے کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا، او آئی سی جو متعدد امور میں ناکام ہوچکا ہے اس مسئلے پر بھی آواز اٹھانے میں ناکام رہا ہے جو انتہائی مایوس کن ہے، معاشی فائدے اور مفادات ہمارے نبی محترم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ہمارے مذہب کے احترام سے بڑھ کر نہیں ہوسکتے۔

اردگان، عمران خان اور مہاتیر جیسے رہنماؤں نے بڑھتے ہوئے اسلامو فوبیا سے نمٹنے کے لئے مشترکہ کوششوں کا فیصلہ کیا تھا لیکن وہ عمل تعطل کا شکار نظر آتا ہے، اس میں تیزی لانے کی ضرورت ہے، عالمی برادری کو اجتماعی پیغام دینے کی ضرورت ہے کہ اس طرح کی حرکتیں ناقابل قبول ہیں اور انہیں روکا جانا چاہئے۔

جب آزادی اظہار اور اظہار رائے کی بات ہو تو اس میں کسی کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے، مغرب کبھی بھی اس احساس کو نہیں سمجھ سکتا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے ہمارے جو جذبات اور احساسات ہیں ہم ان کی عز ت وقار کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرسکتے ہیں۔

Related Posts