جمعیت علمائے اسلام میں بغاوت سے پارٹی کا شیرازہ بکھر سکتا ہے

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ملک میں سیاسی حلقوں میں پی ڈی ایم کے اندر نااتفاقی کی اطلاعات تو سامنے آرہی تھیں لیکن اب ایسا دکھائی دیتا ہے، جے یو آئی ف کے اپنے رہنماؤں کو یہ احساس ہوگیا ہے کہ ریاستی اداروں کے خلاف مولانا فضل الرحمان کے ذریعہ دباؤ کی پالیسی کے تحت آگے نہیں جاسکتے ہیں جس کی وجہ سے پارٹی رہنماؤں نے امیر جے یوآئی کی کی مخالفت شروع کردی ہے۔

سب سے زیادہ سخت بیان جے یو آئی (ف) کے سینئر رہنما مولانا شیرانی کی طرف سے آیا انہوں نے کہا ہے کہ پی ڈی ایم وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کو بے دخل کرنے کی حکمت عملی میں ناکام ہوجائے گی۔ ان کا دعویٰ ہے کہ پی ڈی ایم کے پاس کوئی نظریہ یا حکمت عملی نہیں ہے اور اپوزیشن اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوگی۔

جے یو آئی (ف) کے سربراہ کے خلاف بغاوت کا یہ پہلا عمل ہے اور اس کے بعد پارٹی کے کئی دیگر رہنماؤں نے بھی بغاوت کا اعلان کیا ہے کیونکہ شائد انہیں یہ احساس ہو گیا ہے کہ پی ڈی ایم عمران خان کے اقتدار کو ختم کرنے کے لئے اپنے اصل مقصد سے ہٹ گئی ہے اور اپوزیشن نے نواز شریف کے زیر اثر ریاست مخالف بیانیہ کو اپنالیا ہے۔ جماعت کو یقینی طور پر مولانا شیرانی کے بیان سے تشویش لاحق ہے اور اس مسئلے پر بات کرنے کے لئے ایک اجلاس طلب کیا گیاہے۔

پہلے پی ڈی ایم ریلی کے بعد جے یو آئی (ف) کے ایک اور رہنما حافظ حسین احمد نے بھی ریاست مخالف بیانیہ پر ناپسندیدگی کا اظہارکیا تھاجس کے بعد پارٹی کے ترجمان کی حیثیت سے انہیں ہٹا دیا گیاتھا،جے یو آئی (ف) کے رہنما اور کارکنان ان کے جانے سے سخت مایوس ہیں،جے یوآئی براہ راست اسٹیبلشمنٹ کا سامنا کرکے مسلم لیگ (ن) کے بیانیہ کو تقویت دے رہی ہے اور یہ جماعت لڑنے کی طاقت رکھتی ہے لیکن اندرون خانہ ہونیوالی بغاوت سے پارٹی کا شیرازہ بکھرسکتا ہے۔

مسلم لیگ (ن) نے جے یو آئی (ف) کے اندر بغاوت کو مسترد کرتے ہوئے ان باتوں کو اتحاد کو توڑنے کی سازش قرار دیا ہے۔ احتجاج اور ریلیاں ابھی ختم نہیں ہوئیں اور احتجاج کی لہراب واپس سندھ کی طرف جارہی ہے۔

پیپلز پارٹی نے بے نظیر بھٹو کی برسی پر بھی پی ڈی ایم کا سیاسی جلسہ بنادیا ہے اور بلاول بھٹو نے مریم نواز کو 27 دسمبر کو سیاسی جلسے میں شرکت کی دعوت دی ہے۔

کورونا کے بڑھتے کیسز کے باوجود دونوں جماعتیں حکومت کے خلاف بیان بازی جاری رکھے ہوئے ہیں۔

جے یو آئی کے علاوہ ن لیگ میں بھی بغاوت کے آثار نمایاں ہیں اور کئی رہنماء نوازشریف کے بیانیہ سے اظہار لاتعلقی کرچکے ہیں جس سے حکومتی مؤقف کو تقویت ملی ہے کہ حزب اختلاف عوام کے مسائل حل کرنے کے بجائے احتساب سے بچنے کے لئے پی ڈی ایم کے جھنڈے تلے متحد ہوکر احتجاج کررہی ہے اور اب حالات کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سے تصادم کی طرف جانیوالی جماعتوں کا اپنا وجود خطرے میں پڑچکا ہے۔

Related Posts