عالمی مالیاتی فنڈ کی جانب سے پاکستان کو دیے جانے والے بیل آوٹ پیکیج کے تحت 50 کروڑ ڈالر کی قسط جاری کرنے کی منظوری دے دی گئی ہے جس کے بعد آئی ایم ایف پروگرام دوبارہ سے راستے پر آگیا ہے تاہم اس سے پہلے کہ عالمی مالیاتی ادارہ بجٹ میں تعاون کے لئے 6بلین بیل آؤٹ منصوبے کو بحال کرے وزیر اعظم عمران خان کو حالیہ ہفتوں میں سیاسی غیر یقینی صورتحال کے درمیان سخت معاشی فیصلے کرنا پڑے ۔
کارپوریٹ ٹیکس چھوٹ مسترد کرنے کے بارے میں ایک صدارتی آرڈیننس منظور ہونے کے ایک دن بعد آئی ایم ایف کی ایگزیکٹو باڈی نے 500 ملین کی تیسری قسط کی منظوری دی۔ آئی ایم ایف نے پہلے ہی دو قسطوں میں 1اعشاریہ 45 بلین ڈالر کی رقم تقسیم کی ہے اور اس سے مجموعی طور پر 2 بلین ڈالر رہ گئے ہیں۔ لیکن اگلے پروگرام میں 700 بلین روپے سے زیادہ ٹیکس وصول کرنے اور اخراجات میں کمی کی وجہ سے اس پروگرام کو ٹریک پر رکھنا چیلنج ہوگا۔
پاکستان کی معیشت آہستہ آہستہ کورونا وائرس کے بحران کے نتیجے میں صحت یاب ہونا شروع ہوگئی تھی لیکن اس وبائی امراض کی تیسری لہر کا شکار ہوچکا ہے جس سے ایک بار پھر معاشی نمو کا خطرہ ہے جبکہ 140 ارب روپے ٹیکس اور اسٹیٹ بینک کو بے مثال خودمختاری فراہم کرنے پر اتفاق کیا گیا ہے ،مرکزی بینک نے رواں مالی سال کے لئے نمو کی پیش گوئی کو 3 فیصد کردیا ہے جبکہ آئی ایم ایف نے محض 1اعشاریہ 5 فیصد کی پیش گوئی کی ہے۔ حکومت بیرونی قرضے لینے پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہے اور ملک کی بحالی کے باوجود آپشن کو کھلا رکھے گی۔
توقع کی جارہی ہے کہ آئی ایم ایف کو 2 ارب 2 کروڑ ڈالر جاری ہوں گے لیکن حکومت نے غیر یقینی صورتحال کے دوران اپریل میں منی بجٹ جاری کرنے کی مخالفت کی۔ بالآخر حکومت نے اتفاق کیا اور ٹیکس سے استثنیٰ واپس لینے اور آئندہ چھ ماہ میں بجلی کی قیمتوں میں 16 فیصد اور مزید ایک تہائی اضافے کا فیصلہ کیا۔ ٹیکسوں میں مجموعی طور پر 884 ارب روپے جمع ہوں گے لیکن عوام پردباؤ بڑھے گا جو رمضان کے مقدس مہینے کے قریب آنے کے ساتھ ہی قیمتوں میں اضافے کا بھی سامنا کریں گے۔
پاکستان میں اسٹیٹ بینک کوغیر معمولی خود مختاری دینے کے مجوزہ بل پر ایک اور تنازعہ کھڑا ہوگیاہے۔ حزب اختلاف نے اس اقدام کو مرکزی بینک کو آئی ایم ایف کی برانچ بنانے کے مترادف قرار دے دیا ہے۔ اگر حکومت پارلیمنٹ میں اس ایکٹ کو منظور کرنے کی کوشش کرتی ہے تو حکومت کو حزب اختلاف کی سخت ناراضگی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اب یہ یقینی ہے کہ حکومت یقینی طور پر اگلے بجٹ میں نئے ٹیکس لگائے گی کیونکہپاکستان کو فنڈز کی اشد ضرورت ہے اور وہ بانڈز کے اجرا کے ذریعے پیسہ اکٹھا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اگرچہ برآمدات اور ترسیلات زر بڑھ چکے ہیں اور کرنٹ اکاؤنٹ کا خسارہ سکڑ گیا ہے ، اس کےباوجودمعیشت کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لئے مزید فنڈز کی ضرورت ہوگی۔