قیام پاکستان سے 72 سال تک ملک میں تعمیرات کے شعبہ کو خاص اہمیت نہیں دی گئی لیکن پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے قیام کے بعد وزیراعظم عمران خان ملکی تاریخ کے پہلے حکمران ہیں جنہوں نے تعمیراتی شعبہ کو صنعت کا درجہ دیکراس شعبہ کو اس کا حق دیا ہے ۔
تعمیرات وہ واحد صنعت ہے جہاں خریدار بھی موجود ہے، کام کرنے والا بھی مقامی ہے، زمینیں بھی پاکستان میں موجود ہیں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ جب تعمیرات کی صنعت چلتی ہے تو اپنے ساتھ 72 صنعتوں کو ساتھ لے کر چلتی ہے اور زراعت کے بعد تعمیرات صنعت سب سے زیادہ روزگار پیدا کرتی ہے۔تعمیراتی شعبہ ہنر مند اور غیر ہنر مند ہر طرح کے محنت کشوں کو روزگار فراہم کرتا ہے۔
پاکستان کے شہری علاقوں میں سب سے روزگار کے مواقع پیدا کرنے میں بھی تعمیراتی صنعت کا کردار سب سے نمایاں ہے۔ تعمیراتی شعبہ نے ہمیشہ ملک کی تعمیر و ترقی میں آگے بڑھ کر کردار ادا کیا ہے لیکن گزشتہ چند سالوں سے عدلیہ کے کچھ فیصلوں کی وجہ سے تعمیراتی صنعت شدید مشکلات سے دوچار ہوچکی ہے جس کی وجہ سے سرمایہ کاروں نے سرگرمیاں روک رکھی ہیں جبکہ کورونا نے ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والی تعمیراتی صنعت کی بنیادیں بھی ہلا کر رکھ دی ہیں۔
وزیراعظم پاکستان عمران خان نے تعمیراتی شعبہ کو صنعت کا درجہ دیکر ملکی معیشت کو واپس ترقی کی راہ پر ڈالنے کی کی ابتداء کی ہے اور سرمایہ کاروں نے اپنے زیر التواء منصوبوں پر دوبارہ کام شروع کردیا ہے جس کی وجہ سے لوگوں کو روزگار بھی میسر آیا ہے لیکن ملک کے معاشی حالات کے پیش نظر بلڈرز اور ڈیولپرز نئے منصوبوں کا آغاز کرنے میں ہچکچا رہے ہیں۔
سرمایہ کار شش و پنج کا شکار ہیں کہ نئے منصوبوں میں لوگ خریداری کرینگے یا نہیں کیونکہ ملک میں معاشی سرگرمیاں معطل ہونے کی وجہ سے لوگوں کی قوت خرید ختم ہوچکی ہے ۔
حالات کو دیکھتے ہوئے سرمایہ کار دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی پر گامزن ہیں، بلڈرز زمینی صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں اس لئے چھ ماہ کیلئے نئی سرمایہ کاری کا سلسلہ روک دیا گیا ہے، موجودہ صورتحال معاشی انجماد کو ختم کرکے کاروباری سرگرمیاں بحال کرنے کی متقاضی ہے۔لوگوں کو ایس او پیز کا پابند بناکر معاشی سرگرمیاں بحال کرکے ملکی معیشت کو سہارا دیا جاسکتا ہے اور کاروباری طبقہ کو آگے آنا ہوگا۔
پاکستان میں اس وقت بلند شرح سود بھی ایک بہت بڑا مسئلہ بن چکی ہے، شرح سود زیادہ ہونے کی وجہ سے لوگ مختلف منصوبوں یا کاروبار میں سرمایہ کاری پر توجہ دینے کے بجائے بینکوں میں رکھوانے کو ترجیح دیتے ہیں، ملک میں چھپے والے کرنسی نوٹ چالیس فیصد بینکوں کے پاس جبکہ باقی ساٹھ فیصد سسٹم سے باہر ہیں تاہم وزیراعظم پاکستان عمران خان نے تعمیراتی شعبہ میں سرمایہ کاری کے حوالے سے چھوٹ کا اعلان کرکے سسٹم سے باہر اس پیسے کو واپس سسٹم میں لانے کا موقع دیا ہے لیکن مجرمانہ ذرائع، کرپشن اور غیر قانونی طریقے سے بنایا جانیوالا پیسہ تعمیراتی صنعت میں لگانے پر ضرور پوچھ گچھ ہوگی۔
پاکستان میں ہر سال 25 لاکھ کے قریب نوجوان روزگار کیلئے مارکیٹ میں آتے ہیں اور منجمد یا چھپایا ہوا پیسہ مارکیٹ میں آنے سے روزگار کے مواقع پیدا ہونگے کیونکہ اس وقت موجودہ نظام میں پہلے سے موجود ملازمین کی بقاء خطرے میں ہے ایسے میں ہم سالانہ مزید 25 لاکھ روزگار کے مواقع نہیں پیدا کرسکتے۔
اس وقت ملک میں نئی سرمایہ کاری کا سلسلہ معطل ہے اور آئندہ چھ ماہ تک سرمایہ کاری بحال ہونے کا امکان کم دکھائی دیتا ہے۔حکومت صرف تعمیراتی صنعت میں نہیں بلکہ ہر شعبہ میں سرمایہ کاری کیلئے یہ اعلان کردے کہ جس کے پاس پیسہ موجود ہے وہ کسی بھی شعبہ میں سرمایہ کاری کرے کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوگی، اس سے پیسہ واپس سسٹم میں آجائیگا۔
عمران خان پاکستان کے ساتھ ساتھ اسلامی دنیا کی موثر آواز بن کر ابھرے ہیں ، پوری دنیا کو عمران خان کی قرض معافی کی درخواست پر غور کرنا چاہیے اور اگر آئی ایم ایف، ایشین بینک اور دیگر مالیاتی ادارے غریب ممالک کے قرض معاف نہیں کرسکتے تو کم سے کم دس سے پندرہ سال تک اقساط کی ادائیگی موخر کی جائے اور سود معاف کردیا جائے کیونکہ غریب ممالک اس وقت پینے کے صاف پانی، صحت اور دیگر بنیادی سہولیات سے محروم ہیں اور قرض پر سود کی ادائیگیوں کی وجہ سے پسماندہ ممالک کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونے میں شدید مشکلات درپیش ہیں۔
کراچی میں عمارتیں گرنے میں ہونیوالی ہلاکتیں افسوسناک ہیں لیکن جس رفتار سے کراچی میں غیر قانونی عمارتیں بن رہی ہیں زلزلے کا ایک جھٹکا کراچی کو مٹی کا ڈھیر بناسکتا ہے، شہر میں غیر قانونی تعمیرات ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے لیکن اس میں بلڈرز ہی نہیں بلکہ نظام بھی اتنا ہی قصور وار ہے۔
قانونی تقاضوں کو پورا کرکے عمارت بنانے والے ایک عام بلڈر کو منصوبے کی اجازت لینے کیلئے 18 ماہ کا عرصہ لگتا ہے اور منصوبے میں لگائی جانیوالی رقم چار سال میں سالانہ پچیس فیصد کے حساب سے واپس ملتی ہے لیکن غیر قانونی طریقے سے بلڈنگ بنانے والے چھ ماہ میں عمارت کھڑی کرکے دام کھرے کرلیتے ہیں۔
بلڈنگ کنٹرول، کنٹونمنٹ، کے ایم سی، علاقے کے بدمعاش اور پولیس سب ملکر ایک غیر قانونی عمارت کو تکمیل تک پہنچاتے ہیں۔ اگر نظام درست ہو اور پیچیدگیاں نہ ہوں تو یہی کام قانونی طریقہ کار سے کیا جاسکتا ہے کیونکہ غیر قانونی تعمیرات کرنے والے کسی چیز کی پرواہ نہیں کرتے جس کا نتیجہ انسانی جانوں کے ضیاع کی صورت میں نکلتا ہے۔