آئی ایم ایف قرضوں کی بحالی

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

آئی ایم ایف نے 6 بلین ڈالر کے اس پروگرام کو بحال کرنے پر اتفاق کیا ہے جو گذشتہ سال اپریل میں کورونا وائرس وبائی بیماری اور پالیسی اختلافات کے سبب معطل کردیا گیا تھا۔ عالمی مالیاتی ادارہ کیساتھ ایک معاہدہ طے پایا ہے جس کے تحت پاکستان کے لئے 500 ملین قرضوں کی راہ ہموار ہوگی۔

آئی ایم ایف سے قرض کی فراہمی کا معاہدہ بڑی شرائط کے بعد بحال ہوا ہےجس کا بوجھ صارفین کو برداشت کرنا پڑے گاکیونکہ حکومت اخراجات کو کم کرنے، بجلی کی قیمتوں میں اضافے اور اضافی ٹیکس عائد کرنے پر متفق ہوگئی ہے۔

پیٹرولیم قیمتوں اور بجلی کے نرخوں میں حالیہ اضافے کو بیل آؤٹ منصوبے کی بحالی کا پیش خیمہ سمجھا جارہا ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ طے شدہ معاہدے کی مکمل تفصیلات ابھی تک غیر واضح ہیں لیکن تمام زیر التوا جائزوں کو کچھ شرائط کے نفاذ کے تحت منظور کیا گیا ہے۔

پاکستان کو اگلے مہینے کے اوائل میں ممکنہ طور پر بڑی رقم ملنے والی ہے،آئی ایم ایف نے پاکستان کی تعریف کی اور کہا ہے کہ حکام معاشی لچک کو مستحکم کرنے اور پائیدار نمو کو آگے بڑھانے کے لئےپالیسی اقدامات اور ساختی اصلاحات کے پابند ہیں۔

پاکستان آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت معاشی اصلاحات کو نافذ کرنے اور ٹیکس وصولی میں اضافے کے لئے بھی کام کر رہا ہے جس کا مقصد معیشت کو مختلف کامیابیوں میں استحکام بخشنا ہے۔

پاکستان میں وبائی بیماری کے باوجود حکومت کو مثبت انداز سے حوصلہ ملا ہے، ملک میں برآمدات میں اضافہ دیکھا گیا ، ترسیلات زر ہر ماہ 2 بلین ڈالر سے بھی زیادہ رہیں اور جاری مالی سال میں زیادہ تر کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ تھا تاہم حکام کاکہنا ہے کہ پاکستان وبائی مرض سے بری طرح متاثر نہیں ہوا اور مشکل مرحلہ کامیابی سے گزر گیا ہے۔ مالی پوزیشن کو تقویت بخشنے اور معیشت پر عالمی اعتماد بڑھانے کے لئے اب حکومت آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ پیکیج پر بھروسہ کر رہی ہے۔

آئی ایم ایف کو آخری حربے کے قرض دینے والے کے طور پر دیکھا جانا چاہئے لیکن حکام اسے پہلی ترجیح کے طور پر دیکھتے ہیں اور جب بھی مالی بحران ہوتا ہے تو پھر عالمی اداروں کی طرف دیکھا جاتا ہے۔ عالمی بینک اور آئی ایم ایف جیسے اداروں کو اپنی معاشی پالیسیوں کی وجہ سے ترقی پذیر ممالک میں شاذ و نادر ہی کامیابی نصیب ہوئی ہے جس نے کبھی بھی ملک کے مفادات کے لئے کام نہیں کیا اور معاشی صورتحال کو مزید خراب بناسکتی ہے۔

ہم کئی مہینوں سے سن رہے ہیں کہ معیشت صحیح راہ پر گامزن ہے،اگرچہ یہ قرض معیشت کو تیز تر کردے گا لیکن اس سے عام شہریوں پر بوجھ بڑھ جائے گا جو پہلے ہی مشکل سال گزار چکے ہیں۔

پاکستان کی معیشت نے نہ ہونے کے برابر ترقی کی ہے ، بے روزگاری بڑھ رہی ہے اور مہنگائی اب بھی موجود ہے۔ حکومت کو اس بار پر غور کرنا چاہیے کہ حکومتی بیانات اور زمینی حقائق میں تضاد کیوں ہے اور درست سمت کا تعین کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

Related Posts