عالمی جریدے دی اکانومسٹ کی شائع کردہ 50 ممالک کی فہرست میں پاکستان وہ تیسرا اہم ملک قرار دیا گیا ہے جس نے کورونا پر قابو پانے کیلئے اقدامات اٹھائے جس کیلئے نارملسی انڈیکس کی اصطلاح استعمال کی گئی۔ وزیرِ اعظم عمران خان نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا ہے کہ ملک بھر میں تو پی ٹی آئی حکومت پر شدید تنقید ہوئی تاہم عالمی سطح پر سرکاری کاوشوں کا اعتراف کیا گیا ہے۔
دراصل نارملسی انڈیکس کا مقصد یہ طے کرنا ہے کہ وہ کون سے ممالک ہیں جو کورونا سے قبل کی صورتحال کی طرف واپس جا رہے ہیں اور ان کے حالات معمول کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ مارچ 2020 میں متعدد ممالک نے اپنے شہریوں کی نقل و حرکت پر پابندیاں عائد کردی تھیں۔ پاکستان نے بھی تیزی سے یہی پالیسی اپنائی لیکن شہریوں کی طرف سے ایس او پیز کی پابندی نہ کرنے کے باوجود پاکستان کی صورتحال پڑوسی ممالک ایران اور بھارت سے کہیں بہتر ہے۔
ہمارے ہمسایہ ممالک ایران اور بھارت میں کورونا نے تباہی پھیلا دی۔ پاکستان میں اب تک کورونا کے کیسز کی تعداد 10 لاکھ سے بھی کم ہے۔ ہلاکتوں کی سطح فی الحال 22 ہزار تک ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ کورونا وائرس نے یہاں زیادہ بربادی نہیں پھیلائی۔
یہ واضح کرنا بھی ضروری ہے کہ نارملسی انڈیکس یہ ظاہر کرتا ہے کہ کوئی ملک کورونا کے بعد معمولاتِ زندگی کی طرف کیسے لوٹا جس کا تعلق وائرس سے نمٹنے کے طریقہ کار سے نہیں ہے۔ وبائی بیماری کے آغاز کے بعد سے ٹریفک، سینما ہالز کی آمدنی، کھیلوں کے میدانوں میں شائقین کی تعداد اور کاروباری مراکز اور دکانوں پر رش میں کمی دیکھنے میں آئی۔ پاکستان فیکٹریاں، نقل و حمل اور مارکیٹس دوبارہ کھولنے پر تیزی سے کام کر رہا ہے تاہم فلائٹ آپریشنز کی بحالی میں مشکلات کا سامنا ہے۔
اگرچہ حکومت نے وائرس پر قابو پانے میں این سی او سی سمیت دیگر اداروں کے کردار کو سراہا، تاہم یہ بھی واضح رہے کہ کورونا کی صورتحال ایک بار پھر ابتری کی طرف گامزن ہے۔ پاکستان میں کورونا کیسز میں ایک بار پھر تیزی اور ٹیسٹ کا نتیجہ مثبت آنے کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے۔ این سی او سی نے بھی تصدیق کی ہے کہ پاکستان میں کورونا کی اقسام ایلفا، بیٹا اور ڈیلٹا موجود ہیں اور ایک متغیر مقامی قسم بھی موجود ہے۔ یہ اطلاعات بھی سامنے آچکی ہیں کہ وائرس مزید تیزی سے پھیل سکتا ہے اور صورتحال مزید ابتری کی طرف جاسکتی ہے۔
دوسری جانب حکومت کی خاطرخواہ کوششوں کے باوجود ویکسین لگوانے کی اہل آبادی میں سے صرف 3 اعشاریہ 5 فیصد نے ویکسین لگوائی ہے۔ ویکسینیشن مہم میں بار بار ویکسین کی کمی، غلط معلومات کے پھیلاؤ اور دیگر منفی تاثرات کی روک تھام ضروری ہے۔
پاکستان نے جلدی میں معیشت کے تمام شعبہ جات کھول دئیے ہیں اور ایک سرکاری بیان کے مطابق ہمیں کورونا کی چوتھی لہر کیلئے تیار رہنا ہوگا۔ وزیرِ اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ کورونا پر جس طرح قابو پایا گیا، ہمیں اللہ تعالیٰ کے رحم و کرم کا شکرگزار ہونا چاہئے۔