رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکرِ جمیل سے مشامِ جان وایمان کو معطر ومنور کرنا ہر مسلمان کا شیوہ اور محبت رسول کے اظہار کا ذریعہ ہے۔ جس کے لیے غالب کے الفاظ میں ادب وآداب کا خیال رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ کیونکہ:
ادب گاہیست زیرِ آسماں از عرش نازک تر
نفس گم کردہ می آید جنیدؒ و بایزیدؒ ایں جا
رسول اللہ سے صحابہ کرام کی محبت کسی ثبوت کی محتاج نہیں۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے کسی نے پوچھا کہ ’’آپ کو رسول اللہ سے کس قدر محبت تھی؟ تع انہوں نے فرمایا:
’’اللہ کی قسم! رسول اللہ ہمیں اپنے اموال، اولاد، باپ، داد اور ماؤں سے بھی زیادہ محبوب تھے۔ کسی پیاسے کو ٹھنڈے پانی سے جو محبت ہوتی ہے، ہمیں رسول اللہ اس سے بھی بڑھ کر محبوب تھے۔‘‘
حضرت ابوسفیان نے قبولیت اسلام سے پہلےصحابہ کی محبت کے انداز دیکھے تو فرمایا :
’’میں نے کسی ایسے شخص کو نہیں دیکھا کہ دوسروں سے ایسی محبت کرتا ہو جیسی محبت اصحابِ محمد‘حضرت محمدصلی اللّٰہ علیہ وسلم سے کرتے ہیں۔‘‘
مولانا ابوالکلام آزاد لکھتے ہیں:
’’دنیا میں انسانوں کے کسی گروہ نے کسی انسان کے ساتھ اپنے سارے دل اور اپنی ساری روح سے ایسا عشق نہیں کیا ہوگا، جیساکہ صحابہ کرام نے اللہ کے رسول سے راہِ حق میں کیا، انہوں نے اس محبت میں وہ سب کچھ قربان کر دیا،جو انسان کرسکتا ہے اور پھر اس راہ سے انہوں نے سب کچھ پایا جو انسانوں کی کوئی جماعت پاسکتی ہے۔‘‘
صحابیاں کہ برہنہ بہ پیشِ تیغ شدند
خراب و مست بدند از محمد مختار
’’صحابہ کرام برہنہ تلوار کے آگے خود کو پیش کردیتے تھے، کیونکہ وہ محمد مختار کی محبت میں بے خود ومدہوش تھے۔‘‘
رسول اللہ سے اس قث محبت کے باوجود صحابہ کرام کی مقدس زندگیوں سے ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ اس عشق میں وہ اپنے ہوش وحواس گم اور اظہار محبت میں اطاعت چھوڑ بیٹھے ہوں۔ اطاعت ان کے لیے محبت کے ایسے بے محابا اظہار کی راہ میں ہمیشہ رکاوٹ بن کر کھڑی ہوگئی جس میں محبوب کی رضا شامل نہ ہو۔حضرت انس جنہوں نے دس برس تک حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی وہ فرماتے ہیں:
’’ہمیں رسول اللہ کی ذاتِ گرامی سے بڑھ کر کوئی بھی محبوب نہ تھا، مگر ہم آپ کے لیے کھڑے نہیں ہوتے تھے، کیونکہ ہم جانتے تھے کہ یہ بات آپ کو پسند نہیں ہے۔‘‘
یعنی محبوب سے کمال درجے کی محبت یہی ہے کہ آپ محبوب کی پسند اور ناپسند کا خیال رکھیں۔ اسی لیےشیخ سعدی فرماتے ہیں :
مپندار سعدی کہ راہِ صفا
تواں رفت جز درپے مصطفی
خلافِ پیمبر کسے رہ گزید
کہ ہرگز بہ منزل نہ خواہد رسید
’’سعدیؒ! اس گمان میں مت رہنا کہ راہِ اخلاص حضرت محمد مصطفی کی اتباع کے بغیر طے ہوسکتی ہے، جو شخص رسول اللہ کے خلاف راستہ اختیار کرے گا، کبھی منزلِ مراد تک نہ پہنچ سکے گا۔‘‘
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے رحلت تک ایک ایک واقعےاور رُخِ مصطفی کی ایک ایک جھلک کا تذکرہ سرمۂ چشمِ بصیرت، رحمتِ الٰہی اور برکاتِ ربانی کے نزول کاذریعہ ہے۔دنیا کا کوئی مسلمان، خواہ اس کا تعلق کسی مکتبِ فکر سے ہو، آپ کی ولادت باسعادت کے ذکر سے غفلت اختیار نہیں کرسکتا۔
بد قسمتی سےہم نے دین کو اپنے معاملات کا حصہ بنانے کے بجائے تہوار کی شکل دے دی ہے۔ کبھی محرم منائی جارہی ہے تو ،کبھی ربیع الاول ۔حدیث کا مفہوم ہے کہ انسان اپنے معاملات سے پہچانا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے زندگی میں کیا ان تعلیمات کا عکس نظر آتاہے جو دین نے ہمیں سکھائی ہیں؟ ہماری تمام توانائیاں تہوار منانے کی نذر ہو جاتی ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے تقاضے صرف گھروں پہ چراغاں کرنے اور, میلاد منانے سے پورے نہیں ہو جاتے۔ دین کو تہوار کے طور پر منانے کے جو انداز ہم نے اختیار کر لیے ہیں اس میں یہ بات پس پشت ڈال دی گئی ہے کہ ہمارے باہمی معاملات دینی تعلیمات کی عکاس پونے چاہیے۔
معاشرتی لین دین میں بددیانتی کے مظاہر اتنے عام ہیں۔ کہ عام آدمی سے لے کر اہل اختیار تک جھوٹ ,بددیانتی اور کرپشن میں لتھڑا ہو ایے۔ بلا شبہ سچے اور امانت دار مسلمان ہمارے معاشرے میں موجود ہیں لیکن ہمارے سماج میں زیادہ تعداد ان لوگوں کی ہے جو جھوٹ ،خیانت ، وعدہ خلافی،ریاکاری ، ناپ تول میں کمی آور اشیاء میں ملاوٹ کرتے ہیں۔ چیزوں کو فروخت کرتے وقت جھوٹ بولنا اخلاقی برائی کی بجائے عادت سمجھا جاتا ہے۔سیاستدان ووٹ کے لیےجھوٹےوعدے کرتے ہیں۔ یہاں سیاست جھوٹ کا دوسرا نام ہے۔
لوگ اس بات سے غافل ہیں کہ وعدہ پورا کرنا کتنی بڑی ذمہ داری ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ” لادین لمن لا عھد لہ” اس کا دین جو وعدہ پورا نہیں کرتا”حضور اکرم کی حیات طیبہ سے ایفائے عہد کی جو مثالیں ملتی ہیں اگر ان کا عشر عشیر بھی ہم اپنی زندگیوں میں شامل کرلیتے تو شاید سماج کی یہ صورت نہ ہوتی۔ اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہےکہ ہمارے مسائل کی جڑ سچائی اور دیانت کا عنصر کا نہ ہونا ہے۔ جھوٹ ، بددیانتی، کرپشن، خیانت ،لالچ رشوت روز افزوں اور سچائی وقناعت کی دولت ناپید ہو تی جارہی ہے۔اور لوگ ہوس کے پجاری بن گئے ہیں۔
پاکستان میں پچانوے فیصد کام رشوت کے بغیر نہیں ہوتے۔یہ اس نبیﷺ کی امت کا احوال ہے جو صادق وامین تھے یعنی سچے اور امانت دار۔ یہ دونوں خوبیاں اخلاقیات کا نچوڑ ہیں۔ مولانا کوثر نیازی مرحوم اپنی کتاب ذکر رسول میں لکھتے ہیں:
صبح وشام اسلام کے غلغلۂ بلند کے باوجود ہم اپنے آپ کو اسلام کے مزاج سے ہم آہنگ نہیں کرسکے۔ ہم کلمۂ طیبہ پڑھنے، پیغمبر اسلام کی عزت وحرمت پر قربان ہوجانے کے لیے ہردم تیار رہنے اور پورے فخر کے ساتھ سینہ تان کر اپنے آپ کو مسلمان کہلانے کے باوجود ان ذمے داریوں اور فرائض کو نہیں سمجھ سکے، جو یہ دعوے اور یہ جذبات ہم پر عائد کرتے ہیں۔‘‘
خدا کرے کہ ہم یوم ولادت رسول مناتے وقت ان فرائض اور ذمہ داریوں کو سمجھیں اور ان سے عہدہ بر آ ہونے کی کوشش کریں اور اپنے عشق و محبت کے دعوے داری کو حقیقت کا روپ دے سکیں۔
تحریر: پروفیسر عبد الواحد سجاد