دنیا کے سب سے مظلوم روہنگیا مسلمان اقوام عالم کی توجہ کے منتظر

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Remembering the Rohingya – Yet another persecuted Muslim community

میانمار میں فوجی کریک ڈاؤن کے دوران راکھین ریاست سے فرار ہوکر بنگلہ دیش میں  پناہ لینے والے ساڑھے 7 لاکھ سے زائد روہنگیا مسلمانوں کے انخلاء کو تیسرا سال مکمل ہورہا ہے ،کورونا وائرس کی وباء اور دیگر بنیادی وسائل سے محرومی نے بنگلہ دیش میں پناہ لینے والے 10 لاکھ کے قریب پناہ گزینوں کو احتجاج پر مجبور کردیا ہے۔

اگست 2017ء میں میانمار میں ہونیوالے فوجی آپریشن میں  بڑے پیمانے پر روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کی گئی جبکہ اقوام متحدہ نے بھی اس ظلم و بربریت کا اقرار کیا اور انہی مظالم کی وجہ سے ہزاروں روہنگیا مسلمانوں نے بنگلہ دیش میں پناہ حاصل کی۔

روہنگیا مسلمانوں کے انخلاء یا فرار کو تین سال ہورہے ہیں  لیکن یہ مجبور اور بے کس افراد میانمار واپس جانے کیلئے تیار نہیں ہیں جہاں ان کو کوئی سہولت میسر نہیں ہے جبکہ مسلمان ہونے کی وجہ سے میانمار میں انہیں انتہائی کمتر سمجھا جاتا ہے اور مظالم ڈھائے جاتے ہیں۔

گزشتہ سال روہنگیا مسلمانوں کی آمد کے دو سال مکمل ہونے پر مشرقی بنگلہ دیش کے سب سے بڑے کٹوپلونگ کیمپ میں جہاں تقریباً 6 لاکھ افراد کیمپوں میں مقیم ہیں وہاں گزشتہ سال دو لاکھ کے قریب لوگوں نے وسائل کی کمی اور مسائل کے حوالے سے ایک بڑی ریلی نکالی تھی۔

بنگلہ دیش میں مقیم روہنگیا مسلمان کیمپوں میں سہولیات کی کمی پر بے چینی کا شکار ہیں ،انٹرنیٹ تک رسائی میں کمی ہے اور اب کورونا وائرس کی وجہ سے اجتماعات پر پابندی عائد ہے جبکہ عسکریت پسندوں نے خار دار تاروں کی باڑ لگاکر باقی بنگلہ دیش سے وسیع و عریض کیمپوں کو منقطع کردیا ہے۔

کیمپوں میں کورونا وائرس سے بچاؤ کیلئے  جسمانی دوری کسی صورت ممکن نہیں ہے جبکہ 84 افراد میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوچکی ہے ,6 افراد جاں بحق ہوچکے ہیں اور سماجی اور جسمانی دوری نہ ہونے کی وجہ سے کورونا وائرس بڑی تیزی کے ساتھ پھیل سکتا ہے، اس تمام تر صورتحال میں روہنگیا مسلمان اپنے خیموں میں دعاؤں کے سواء کچھ نہیں کرسکتے۔

عزت اور وقار کے ساتھ واپسی
بنگلہ دیش نے میانمار کے ساتھ مہاجرین کی واپسی کے معاہدے پر دستخط کیے ہیں لیکن روہنگیا مسلمانوں نے اپنی حفاظت اور مناسب حقوق کی ضمانت کے بغیر واپس جانے سے انکار کردیا ہے۔

میانمار میں تقریباً6 لاکھ روہنگیا مسلمان موجود ہیں ، ہیومن رائٹس واچ نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ میانمار کو ایک ایسا بین الاقوامی حل قبول کرنے کی ضرورت ہے جس سے روہنگیا مہاجرین کی محفوظ اور رضاکارانہ واپسی کا بندوبست ہو ۔

ریاست راکھین میں اب بھی 6 لاکھ کے قریب موجود روہنگیا مسلمانوں کو مختلف مسائل کا سامنا ہے، انسانی حقوق کے ایک ادارے کا کہنا ہے کہ حکام کو فوری طور پر نقل و حرکت کی پابندی اورامتیازی سلوک کو ختم کرنا چاہئے ۔

کیمپوں میں تفریق
بنگلہ دیش 10 لاکھ سے زیادہ روہنگیا کی میزبانی کر رہا ہے لیکن متعدد پالیسیوں کی وجہ سے انہیں پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔بنگلہ دیش میں روہنگیا پناہ گزینوں کو معلومات ، نقل و حرکت ، تعلیم تک رسائی اور صحت کے حوالے سے سخت مشکلات کا سامنا ہے اور بنگلہ دیشی سیکورٹی فورسز کے ذریعہ روہنگیا مسلمانوں کی ہلاکتیں بھی منظر عام پر آتی رہی ہیں۔

روہنگیا حقوق کی تنظیم روہنگیا یوتھ ایسوسی ایشن نے 25 اگست کو ’روہنگیا نسل کشی کی یاد کا دن‘ کے طور پر اعلان کیاہے۔

آج ہم ان سبھی روہنگیا مردوں ، خواتین اور بچوں کو یاد کرتے ہیں جو نسل کشی کے واقعات کے نتیجے میں مارے گئے، یہ دن روہنگیا مسلمانوں کے بارے میں ایک یاد دہانی ہےجنہیں دنیا کے سب سے زیادہ مظلوم لوگوں کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔

Related Posts