دینی مدارس، عصری تعلیم اور تازہ فریب-پہلی قسط

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

نومبر 1994ء میں کراچی سے اسلام آباد منتقل ہوا تو ابتدائی ایام میں ہی ایک مولوی صاحب نے تلقین کرتے ہوئے فرمایا، آپ اسلام آباد منتقل ہوئے ہیں تو اس نئے شہر میں اب آپ کی نئی دوستیاں بھی قائم ہوں گی۔ یہاں علماء کے حلقے میں ایک آدمی ایسا ہے جس سے آپ کو بچ کر رہنا ہوگا۔

میں نے علماء کے طبقے کے اس آدمی کا نام اور “کرتوت” پوچھے تو بتایا گیا کہ نام اس کا فیض الرحمن عثمانی ہے اور کرتوت اس کے یہ ہیں کہ کچھ سال قبل اسلام آباد کی ایک مسجد میں مؤذن تھا۔ محلے میں اپنے تعلقات مستحکم کرکے امام مسجد کے خلاف سازش کی اور انہیں مسجد سے نکلوا کر خود امامت سنبھال لی۔ برصغیر پاک و ہند کے کچھ مشہور علماء کے مواعظ پر مشتمل کتب خرید لیں اور ان مواعظ کا رٹا لگا کر جمعے کی تقاریر کی ترکیب کرلی۔

تقریر اچھی کر لیتا تھا سو جلد اس کے بھی بہت سے عقیدت مند ہو گئے۔ ان عقیدت مندوں کی مدد سے اس نے مری اور اسلام آباد کے سنگم پر وسیع قطعہ اراضی حاصل کیا اور پھر مدرسے کے نام پر چندہ کرکے وہاں کالج تعمیر کر لیا۔ کہتا وہ اب بھی اسے مدرسہ ہی ہے مگر ہے وہ کالج، جو آگے چل کر یونیورسٹی بھی بن سکتا ہے۔

فیض الرحمن عثمانی کے یہ کرتوت سن کر میں اس نتیجے پر تو پہنچ ہی چکا تھا کہ دنیا و آخرت دونوں کی بھلائی اسی میں ہے کہ اس سازشی شخص سے بچ کر رہا جائے مگر ان مولوی صاحب کی شاید تسلی نہ ہوئی تھی۔ انہیں گہری فکر لاحق رہی ہوگی کہ میں کہیں ان کی تلقین کو نظر انداز نہ کر بیٹھوں۔ چنانچہ انہوں نے کچھ مزید مولویوں سے بھی یہی کہانی مجھ تک پہنچانے کا اہتمام کر ڈالا۔ یوں میں نے مزید پختہ عہد کر لیا کہ شاہراہ حیات پر فیض الرحمن عثمانی سے بچ بچا کر ہی برزخ اور وہاں سے آخرت پہنچنا ہے اور اگر ممکن ہوسکے تو حشر کے میدان میں بھی فیض الرحمن عثمانی سے بچ کر رہنا ہے کہ کہیں ان کے قربت کے نتیجے میں ہم بھی جہنم رسید نہ ہوجائیں۔

بھرپور احتیاط کا یہ سفر بس سات برس ہی چل پایا۔ وہ مارچ 2001ء کی ایک شام تھی جب استاد محترم مفتی نظام الدین شامزئی شہید سے ملاقات کے لئے اسلام آباد کے مولانا شریف ہزاروی کی مکان پر حاضر ہوا۔ وہاں میزبان اور مفتی صاحب کے ساتھ ساتھ ایک اجنبی بھی موجود تھے۔ اجنبی وضع قطع اور گفتگو سے عالم دین ہی لگے۔ مگر زیادہ قابل غور بات یہ تھی کہ وہ مفتی نظام الدین شامزئی شہید سے بے حد بے تکلف تھے۔

دوران ملاقات کوئی ایسی بات ہوئی جس پر اس اجنبی نے چونک کر میری جانب اشارہ کرتے ہوئے گہرے تحیر کے ساتھ مفتی صاحب سے پوچھا، “یہ مولانا محمد عالم صاحب کا صاحبزادہ ہے ؟ وہ جو 1971ء میں ہم مسرور بیس میں واقع مولانا کے گھر آتے جاتے تھے اور وہاں ایک چھوٹا سا بچہ نظر آتا تھایہ رعایت اللہ وہی ہے ؟” مفتی صاحب بے اختیار مسکرا دئیے اور تصدیق کردی۔

ساتھ ہی مجھ سے دریافت فرمایا، “تم مولانا فیض الرحمن عثمانی سے تو واقف ہی ہوگے ؟” یہ کہتے ہوئے مفتی صاحب کا اشارہ اس اجنبی کی جانب تھا۔ میں نے اکتفا صرف جی ہاں کہنے پر ہی کیا مگر جی ہی جی میں کہا،ان حضرت کے کرتوتوں سے تو میں اسلام آباد پہنچتے ہی واقف ہوگیا تھا” کچھ دیر بعد فیض الرحمن عثمانی رخصت ہوئے تو میں نے فوراً مفتی صاحب سے پوچھا، “اس مؤذن سے آپ کی اتنی گہری دوستی کیسے ہوئی ؟ اور یہ آپ کے ساتھ اس زمانے میں ہمارے گھر کیسے آتے جاتے رہے جب میں ابھی صرف دو برس کا تھا ؟۔

مفتی صاحب نے جواباً حیرت سے سوال کیا، “کونسا مؤذن ؟” عرض کیا، “یہ فیض الرحمن عثمانی جو ابھی اٹھ کر گیا ہے”مفتی صاحب نے تقریباً ڈانٹتے ہوئے فرمایا، “مولانا فیض الرحمن عثمانی جامعہ فاروقیہ میں بیتے میرے زمانہ طالب علمی کے ساتھی ہیں، اور تھے بھی یہ مجھ سے سینئر۔ پھر یہ دارالعلوم کراچی چلے گئے اور وہاں سے دورہ حدیث کرکے فارغ التحصیل ہوئے۔ آج ایک بے مثال عالم دین اور منفرد جامعہ کے مہتمم ہیں ۔یہ کس احمق نے تمہیں بتایا ہے کہ یہ مؤذن ہیں ؟” اب یہ اندازہ آپ خود ہی لگا لیجئے کہ اس انکشاف پر میرا کیا حال ہوا ہوگا۔

چند ہی روز بعد مولانا عثمانی سے ایک اور ملاقات ہوئی۔ جلد ہی ان کا مدرسہ “ادارہ علوم اسلامی” اور اس کا نظام تعلیم بھی دیکھ لیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ ان سے بہت ہی گہری دوستی بھی قائم ہوگئی۔ 2009ء میں ضلع بٹگرام میں واقع ان کے جنت نظیر گاؤں بھی جانا ہوا جہاں ان کے ساتھ دو دن قیام رہا اور اس بات پر مسلسل غور و فکر ہوتا رہا کہ ملک میں جاری ہولناک دہشت گردی کے مقابل فکری مزاحمت کو کیسے منظم کیا جائے؟۔

یہ وہ دور تھا جب وقت کے شیخ الاسلاموں نے چپ کے روزے رکھے ہوئے تھے۔ اور ان کے بزدلانہ کردار نے ہم دونوں ہی کے دل توڑ دیئے تھے۔ یہ تفصیلی پس منظر پیش کرنے کی غرض یہ ہے کہ اب جب مقصد کی بات کی جانب آؤں تو یہ بات آپ کے ذہن میں رہے کہ محض سنی سنائی یا کسی ایک آدھ ملاقات سے حاصل معلومات کی بنیاد پر بات نہیں ہو رہی بلکہ جو لکھا جا رہا ہے وہ سالہا سال کا مشاہدہ ہے۔
80 کی دہائی وہ زمانہ ہے جب پاکستان کے کئی بڑے مدارس اور ان کے طلبہ افغانستان کا رخ کرکے عسکریت میں ملوث ہو رہے تھے اور یہ سب انہی قومی اداروں کی منصوبہ بندی سے ہو رہا تھا جو آج انہیں “انتہا پسند” کا ٹائٹل دے کر خود مصلح بن بیٹھے ہیں۔

یوں مولوی تو اب ان قومی اداروں کی دستاویزات میں انتہا پسند قرار پا چکا جبکہ انہیں افغانستان لے جانے والے پورے اطمینان کے ساتھ محب وطن ہیں۔ 80 ء کی اسی دہائی میں میں 1986ء سے وہ سال ہے جب مولانا فیض الرحمن عثمانی نے ایک ایسے تعلیمی ادارے کی بنیاد رکھی جس کے فضلاء کسی پچھلی صدی کے لئے نہیں بلکہ زمانہ حال کے لئے کار آمد ہوں۔ ظاہر ہے ایسا تب ہی ہوسکتا تھا جب طلبہ کو نصاب ایسا پڑھایا جائے جو دینی علوم کے ساتھ ساتھ عصری علوم کا احاطہ بھی کرتا ہو اور وہ بھی محض واجبی نہیں بلکہ کما حقہ۔

یہ خواب ایسے دور میں دیکھا گیا جب عصری علوم کا حصول مولانا عثمانی کے اپنے مکتب فکر کی مین اسٹریم میں حرام سمجھا جاتا تھا۔ چنانچہ ان کے ادارے کو بھی حرام کی تعلیم گاہ کے طور پر ہی دیکھا گیا اور دن رات ان کے خلاف پروپیگنڈہ ہوتا رہا۔ وقت گزرتا اور پانی بہتا ہے۔ آج ہم 2021ء میں کھڑے ہیں۔ سو پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا اور ادارہ علوم اسلامی 35 بہاریں دیکھ چکا۔ یوں یہ وہ عجیب موقع ہے کہ جب ان کے مکتب فکر میں اب جاکر عصری علوم کی گھسی پٹی اور بوگس تیاریاں ہو رہی ہیں تو مولانا عثمانی اپنی پینتیس سالہ کارکردگی رپورٹ پیش کر رہے ہیں۔ یوں وہ اپنے مکتب فکر سے 35 سال آگے کھڑے ہیں۔

ان کے ادارہ علوم اسلامی کا ہر فاضل درس نظامی کا ہی فاضل نہیں ہوتابلکہ عصری تعلیم کے لحاظ سے بی ایس بھی کرچکا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ادارے کا الحاق تین بورڈز سے ہے۔ درس نظامی کا امتحان اس کے طلبہ وفاق المدارس سے دیتے ہیں۔ میٹرک اور ایف اے، ایف ایس سی کا امتحان ان کے طلبہ فیڈرل بورڈ سے جبکہ بی ایس کا امتحان پنجاب یونیورسٹی سے دیتے ہیں۔ یوں یہ ادارہ بیک وقت وفاق المدارس، فیڈرل بورڈ اور پنجاب یونیورسٹی سے الحاق رکھتا ہے۔

اس ادارے کے طلبہ کی صلاحیتیں کس درجے کی ہیں اس اندازہ اس سے لگا لیجئے کہ اس کے طلبہ فیڈرل بورڈ کے امتحانات میں اب تک 50 میڈلز حاصل کرچکے ہیں جبکہ پنجاب یونیورسٹی کے امتحانات میں اس کے چھ طالب علم میڈلز لے چکے ہیں۔ وفاق المدارس کے امتحانات میں اس کا نتیجہ 99 فیصد جبکہ فیڈرل بورڈ اور پنجاب یونیورسٹی کے امتحانات میں نتیجہ 98 فیصد ہے۔

فیڈرل بورڈ سے اس کے 228 طلبہ نے مجموعی طور پر 82 لاکھ 44 ہزار روپے کی اسکالرشپس بھی حاصل کی ہیں جبکہ امتحانات میں کیش انعام کی صورت یہاں کے طلبہ 19 لاکھ 44 ہزار 500 روپے حاصل کرچکے ہیں۔ 2005ء اس ادارے کا اس لحاظ سے یادگار سال ہے کہ فیڈرل بورڈ کے بیس میں سے 15 پوزیشن ہولڈرز طلبہ اسی ادارے کے تھے۔

اس کے ایم فل اور پی ایچ ڈی سکالرز کی تعداد 47 ہے، عصری تعلیم کے مختلف اداروں میں 167 اساتذہ ادارہ علوم اسلامی کے ہی فضلاء ہیں۔ یہاں تک کہ افواج پاکستان میں بھی اس کے 18 فضلاء کمیشنڈ آفیسرز ہیں۔ (جاری ہے)

Related Posts