پی ٹی آئی کی زیرقیادت وفاقی حکومت ملٹی نیشنل کمپنی بیرک گولڈ کے ساتھ سمجھوتے پر پہنچ گئی ہے جس نے سپریم کورٹ کی جانب سے ریکوڈک مائننگ پروجیکٹ کی منسوخی پر 6 اعشاریہ 5 بلین امریکی ڈالر کا ثالثی ایوارڈ جیتا تھا۔
ریکوڈک کان کنی کا منصوبہ بلوچستان کے ضلع چاغی میں واقع ہے۔یہ پروجیکٹ اگراب بھی پانچ سے چھ سال کے وقفے کے بعد پیداوار کے مرحلے میں داخل ہوتا ہےتو اسے ممکنہ طور پر دنیا کی سب سے بڑی سونے اور تانبے کی کان قرار دیا جاسکتا ہے۔
ریکوڈک کے ذخائر نصف سے زائد عرصے تک ایک سال میں 200000 ٹن تانبا اور 250000 اونس سونا پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ پاکستان کواس منصوبے سے 100 سال سے زیادہ کا فائدہ ہوگا اور کل مالیت کا تخمینہ 100 بلین ڈالر سے زیادہ ہے۔
نیا معاہدہ 10 سال کی قانونی لڑائی اور مذاکرات کے بعد طے پایا ہے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ نئے معاہدے سے اسلام آباد کو جرمانے سے بچنے میں مدد ملے گی، اس کے علاوہ 10 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری اور بلوچستان میں 8000 نئی ملازمتیں پیدا ہوں گی۔
نئے انتظام کے تحت بیرک کمپنی کو اس منصوبے میں آدھے حصص ملتے ہیں جبکہ بلوچستان اور وفاقی سرکاری فرموں کے پاس باقی آدھے حصے کا 25 فیصد حصہ ہوگا۔ بیرک کمپنی کو کان کنی کا لیز، ایکسپلوریشن لائسنس اور دیگرحقوق ملیں گے۔
درحقیقت نیا معاہدہ ماضی کی نسبت ایک بہترمعاہدہ معلوم ہوتا ہے جب بین الاقوامی سرمایہ کاروں کے پاس پروجیکٹ کا 75 فیصد حصہ تھالیکن کچھ سوالات باقی ہیں۔
مثال کے طور پر اب تک جو تفصیلات منظر عام پر لائی گئی ہیں وہ ہمیں یہ نہیں بتاتی ہیں کہ آیا سرمایہ کار قیمتی دھاتوں کی برآمد کے لیے ریکوڈک میں ریفائنری قائم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے یا معدنیات کو ان کی خام شکل میں ملک سے باہر لے جانے کا ارادہ رکھتا ہے۔
اگر کمپنی دھاتوں کو ان کی خام شکل میں برآمد کرنے کا فیصلہ کرتی ہے تو کیا ہمارے پاس نکالی گئی اور ملک سے باہر منتقل کی گئی مقدار کا تعین کرنے اور صحیح محصول کی تصدیق کرنے کی صلاحیت ہے؟۔
حکومت کو بلوچستان کے ساتھ ساتھ پورے ملک کے لوگوں کو اس منصوبے کی شفافیت سے آگاہ کرنے کیلئے تمام تفصیلات کو عام کرنا چاہیے تاکہ ایک بار پھر یہ منصوبہ تنازعات کی بھینٹ نہ چڑ سکے۔