خطے میں بڑھتی کالی گھٹائیں 

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

امریکا میں بائیڈن انتظامیہ کے آنے کے بعد علاقائی صورتحال میں تیزی سے تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں جس کے دور رس اثرات ایک قدرتی امر ہے۔ بائیڈن انتظامیہ کے آنے کے بعد امریکا کی خارجہ پالیسی اور توجہ کا محور چین کا اثر و نفوذ روکنا، موسمیاتی تبدیلی اور کورونا وائرس کی روک تھام تھا۔

کورونا وائرس پر بائیڈن انتظامیہ تیزی سے قابو پانے میں کامیاب رہی اور موسمیاتی تبدیلی کے مسئلے پر بھی امریکی انتظامیہ نے اہم پیشرفت دکھائی ۔موسمیاتی تغیرات کے بنی نوع انسان کیلئے خطرات سے نمٹنے امریکا کے کردار کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتارہا ہے ماسوائے ڈونلڈ ڑمپ کے دور کےجبکہ بائیڈن انتظامیہ کی خارجہ پالیسی میں چین کو بڑھنے سے روکنے کیلئے پوری قوت بروئے کار لائی جارہی ہے اورخطے میں بڑھتی ہوئی کالی گھٹاؤں کا اصل سبب بھی امریکا اور چین کے درمیان تناؤ اور امریکا کا چین کو بڑھنے سے روکنے کیلئے اقدامات کو قراردیا جائے تو بے جا نہ ہوگااوریقیناً دونوں بڑی قوتوں کے درمیان تناؤ میں کئی ممالک نہ چاہتے بھی مجبوراً شامل ہوجائینگے۔

ڈاکٹر جمیل احمد خان کے مزید کالمز پڑھیں:

سال 2021 اور پاکستان کا معاشی محاذ

افغانستان۔ایران:خطے میں خطرات کے بادل

خطے میں چین کے کردار کو روکنے کیلئے بھارت کو مضبوط بنانے کی کوشش کی جارہی ہےاور اس سمت میں اوباماانتظامیہ سے لیکر اب تک چار کلیدی دفاعی معاہدے ہوچکے ہیں جس کے تحت ہرقسم کی عسکری سہولیات بھارت کو مہیا کی جارہی ہیں تاکہ بھارت دفاعی لحاظ سے مضبوط ہوکر چین کا اثر و رسوخ روکنے یا محدود کرنے میں امریکا کی مدد کرسکے۔بھارت کو یہ بھی گمان ہے کہ امریکا کی اس قسم کی مدد سے وہ لداخ بارڈر پر اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرسکے۔

معاملہ یہیں ختم نہیں ہوتا بلکہ امریکا نے اس سے پہلے اوکاس کاعسکری معاہدہ جس میں امریکا، آسٹریلیا اور برطانیہ جبکہ اس سے پہلے کوارڈمعاہدہ جس کی نوعیت تو بظاہر معاشی اورتجارتی بتائی جاتی ہے لیکن یہ معاہدہ  بھی چین کیخلاف صف بندی کی ایک ظاہری چال ہے۔

یہاں اصل مسئلہ بڑی عسکری قوتوں کااوکاس معاہدہ ہے اورامریکا، آسٹریلیا اور برطانیہ کی جانب سے خطے کی سمندری حدود میں نیوکلیئر سب میرین بھیجنے کی وجہ سے تناؤ بڑھتا جارہا ہے جبکہ امریکا کے اچانک افغانستان سے انخلاء کی وجہ سے پورے خطے میں ایک بار پھر مسائل بڑھنے لگے ہیں اور القاعدہ،داعش اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کوپنپنے کا موقع مل گیا ہے جبکہ ان تنظیموں نے دوبارہ عسکریت پسندوں کی بھرتیاں بھی شروع کردی ہیں۔

خطے میں دہشت گردتنظیموں کے دوبارہ فعال ہونے پر اقوام عالم کوبخوبی ادراک بھی ہےاور تشویش بھی ہے ۔امریکا کی جانب سے افغانستان سے عجلت میں انخلاء سے خطے کے دیگر ممالک کا بھروسہ بھی امریکا پر کم ہوگیا ہے اور خلیجی ممالک کی توجہ اب امریکا کے بجائے اسرائیل کی طرف ہوچکی ہے ۔ یہ درست ہے کہ امریکا اور اسرائیل کا ایک قریبی تعلق ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اسرائیل کے خطے میں اپنے بھی مفادات امریکا سے کئی گنا زیادہ ہیں۔

اسرائیل کی جانب سے خطے میں اثرونفوذ بڑھانے کے پیچھے گریٹر اسرائیل منصوبے کے پس پردہ عزائم کے حوالے سے آئندہ تحریر میں احاطہ کرینگے تاہم ابھی یہ کہنا کافی ہوگا کہ امریکا جس انداز سے اتحادیوں کی مرضی کے خلاف افغانستان سے انخلاء کرکے گیا ہے اس نے خلیجی ریاستوں کو بھی امریکا کے بجائے اسرائیل کی جانب مائل کردیا ہے ۔

خلیجی ممالک کوافغانستان میں طالبان کے غلبے کے بعد خطے میں دہشت گرد تنظیمیں مزید طاقتور ہونے کا خدشہ ہے اور ان کا ماننا ہے کہ امریکا تو ایران اور طالبان کو قابو کرنے میں ناکام رہا لیکن اسرائیل ایسی قوت ہے جو ایران کو پیش قدمی سے روک سکتی ہے۔قطر اور دیگر خلیجی ریاستوں کے درمیان جاری چپقلش میںکمی کی وجہ بھی یہی ہے کہ جب تک خلیجی ریاستیں آپسی اختلافات کو کم نہیں کریں گی ان کیلئے خطرات بڑھتے جائینگے۔

خطے کے حالات کی وجہ سے پاکستان پر اثرات کا جائزہ لیا جائے تو اسرائیل کی جانب سے ایران پر حملے کی تیاریوں بھی شنید ہے اور ایسے میں پاکستان میں بھی آوازیں اٹھنا عین ممکن ہے کیونکہ پاکستان میں ایران کے موقف کی حامی آوازوں کی وجہ سے حکومت کو سنگین مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ پاکستان کی جانب سے طالبان کی مدد کے بھی خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آسکے جبکہ اب تو نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ پاکستان کی جانب سے سرحد پربھاری سرمائے اور انسانی جانوں کی قیمت پر لگائی جانیوالی سرحدی باڑ کو بھی طالبان نے اکھاڑنا شروع کردیا ہےاور ڈیورنڈ لائن کیخلاف پہلے کی طرح دوبارہ بات شروع کردی ہے اور کھلے عام مخالفت کی جارہی ہے جس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کو آنیوالے دنوں میں اپنے سفارتی ذرائع کے ساتھ ساتھ قبائلی قوتوں اور کلیدی افراد کے ذاتی روابط کو بھی یکجا اور مرکوز کرکے قومی خارجہ اور سیکورٹی پالیسی تیار کرکے طالبان کو بات چیت کے ساتھ دیگر طریقوں سے بھی سرحدی حدود کے احترام کرنے پرمائل کیا جائے ۔

یہ مشکل کام ہے اور اس معاملے کی وجہ سے دوطرفہ تعلقات میں کشیدگی بڑھنا شروع ہوجائیگی اور ہمیں اس ضمن میں بھارت پر بھی نظر رکھنا ہوگی کہ وہ ایسی صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے افغان طالبان کے قریب نہ پہنچ جائے جس کے نتیجے میں پاکستان پہلے جیسے نقصانات کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

Related Posts