ہیلتھ کیئر ایک بنیادی انسانی ضرورت ہے اور سماجی اور اقتصادی ترقی دونوں کے لیے یہ بہت ضروری ہے، تاہم، پاکستان کے آئین میں ہیلتھ کیئر کو بنیادی حق کے طور پر درج نہیں کیا گیا ہے۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت قانونی طور پر تمام شہریوں کو سستی، قابل رسائی اور باعزت ہیلتھ کیئر کی خدمات فراہم کرنے کی پابند نہیں ہے۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے کوویڈ 19 کے مسئلے اور پاکستان کے عام طور پر صحت کے نتائج کی روشنی میں، صحت کے حق کو آئین کا بنیادی حصہ بنانے کے لیے ایک مہم شروع کی ہے۔
پاکستان میں ہیلتھ کیئر کے بدترین اعداد و شمار سامنے آئیں ہیں، جیسے زچگی اور نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات، حفاظتی ٹیکوں کی طرف کم رجحان اور پولیو کیسز کا سامنے آنا، بہت سے لوگ قابل علاج بیماریوں میں مبتلا ہیں، اور اپنی صحت کی حالتوں کی وجہ سے مالی مشکلات اور سماجی بدنامی کا سامنا کرتے ہیں، پاکستان میں ہیلتھ کیئر کو بنیادی انسانی حق کے طور پر تسلیم کرنے اور اسے آئین میں شامل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
اس سے ہیلتھ کیئر ایک بڑی قومی ترجیح بن کر سامنے آئے گی اور حقوق پر مبنی حکمت عملی کی اجازت ملے گی، جو لوگوں کو حکومت سے اعلیٰ معیار کی ہیلتھ کیئر کا مطالبہ کرنے کی صلاحیت فراہم کرے گی۔ مزید برآں، ایسے قوانین اور ضابطوں کو بنانا آسان ہو جائے گا جو صحت کی عالمی کوریج، ہیلتھ کیئر کے لیے کافی فنڈنگ، احتساب کے نظام کی طرف منتقلی کی ضمانت دیتے ہیں۔تولیدی ہیلتھ کیئر کا حق، جسے پاکستان میں اکثر نظر انداز اور اس کی خلاف ورزی کی جاتی ہے، کو ”صحت کے حق” کی تعریف میں شامل کیا جانا چاہیے۔
خاندانی منصوبہ بندی، خطرے سے پاک بچے کی پیدائش، اسقاط حمل کا علاج، صنفی بنیاد پر تشدد، اور دیگر مسائل جو خواتین کی صحت اور تندرستی کو متاثر کرتے ہیں، یہ سب تولیدی ہیلتھ کیئر میں شامل ہیں۔اس حق کو تسلیم کرنے اور پورا کرنے سے نہ صرف خواتین کی صحت کے نتائج بہتر ہوں گے بلکہ معاشرے میں ان کی سماجی اور معاشی حیثیت بھی بہتر ہوگی۔
اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان ان 120 یا اس سے زیادہ ممالک میں شامل ہو جائے جنہوں نے اس حق کو قانون میں شامل کیا ہے اور اس بات کی ضمانت دینے کے لیے فیصلہ کن اقدام کرنا چاہیے کہ اس پر عمل کیا جائے۔ یہ پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول اور تمام پاکستانیوں کے لیے صحت مند اور خوشحال مستقبل کو یقینی بنانے کی جانب ایک اہم قدم ہوگا۔