ریکوڈک منصوبے کو تنازعات سے بچایا جائے

کالمز

"Conspiracies of the Elites Exposed!"
سرمایہ داروں کی خوشحالی، عوام کی غربت، پاکستان کی معیشت کا کھلا تضاد
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟

بلوچستان کے ضلع چاغی میں واقع سونے کے ذخائر ریکوڈک کے معاملے پر حالیہ قانون سازی سے صوبہ بلوچستان میں اہم شراکت رکھنے والی حکومت کی اتحادی جماعتیں جے یو آئی اور بی این پی مینگل حکومت سے سخت ناراض ہوگئی ہیں اور انہوں نے بجا طور پر یہ اعتراض اٹھایا ہے کہ صوبے میں واضح اسٹیک اور عوامی بنیاد رکھنے کے باوجود بلوچستان میں عوامی اور قومی مفاد کے اس اہم ترین منصوبے پر انہیں اعتماد میں نہیں لیا گیا ہے۔

ریکوڈک کے سونے کے ذخائر سے متعلق قومی اہمیت کا حامل یہ منصوبہ 2013 سے شدید تنازعات کی زد میں ہے، جس کے باعث صوبہ اور ملک تا حال ان ذخائر سے استفادے کے آثار ابھرنے سے محروم ہیں، جو ملک کی بڑی بد قسمتی ہے۔

ایک دہائی قبل ان ذخائر سے سونے کی کان کنی کے سلسلے میں دو غیر ملکی کمپنیوں کے وینچر کے ساتھ  معاہدہ کیا گیا تھا، ان کمپنیوں نے منصوبے پر کام کا آغاز کر دیا تھا اور تقریباً 220 ملین ڈالر خرچ کردیے تھے کہ منصوبے کو اس کی کچھ جزئیات پر بعض حلقوں کے اعتراضات کے باعث رکوا دیا، بلکہ عدالت عظمیٰ نے یہ معاہدہ ہی ختم کروا دیا۔ 

منصوبے پر کام کرنے والی کمپنیاں سپریم کورٹ آف پاکستان کے اس فیصلے کو لیکر پاکستان کے خلاف عالمی عدالت چلی گئیں، جہاں فیصلہ پاکستان کیخلاف دیا گیا۔ ساتھ ہی عالمی عدالت نے پاکستان پر بھاری جرمانہ بھی عائد کر دیا۔

معاملہ عالمی سطح پر جانے سے پاکستان کیلئے مشکلات بڑھ گئیں، جس پر پاکستان نے عدالت سے باہر ان کمپنیوں کے ساتھ سیٹلمنٹ پر رضامندی ظاہر کردی، آخرکار کچھ شرائط کے ساتھ ان کمپنیوں کے ساتھ نیا معاہدہ عمل میں لایا گیا۔

وفاقی کابینہ نے گزشتہ دنوں اسی نئے معاہدے کو تحفظ دینے کیلئے قانون سازی کی تھی۔ مجموعی طور پر نئے معاہدے پر بلوچستان کی حکومت بھی اتفاق رائے ظاہر کر چکی ہے تاہم بلوچستان میں جڑیں رکھنے والی حکومتی اتحادی جماعتوں کے اعتراض کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ بلوچستان سے متعلق ایک اہم فیصلے میں انہیں شریک نہ کرنا درست نہیں۔

ملکی اور عوامی مفاد میں یہ امر بہت ضروری ہے کہ اس منصوبے کو تمام اسٹیک ہولڈرز کے اعتماد کے ساتھ آگے بڑھایا جائے، ورنہ خدشہ ہے کہ ایک بار پھر تنازعات اس کے دامن سے الجھیں گے اور ملک اور صوبہ بلوچستان کی ترقی و خوشحالی کا جو خواب اس منصوبے سے وابستہ ہے، اس کی کلی کھلنے سے پہلے ہی مرجھا جائے گی۔