روپے کا استحکام

مقبول خبریں

کالمز

Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟
Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

پاکستان کی قدر کھوتی کرنسی روپے نے بالآخر استحکام کی راہ اختیار کی جو پاکستانیوں کیلئے اقتصادی محاذ پر گزشتہ ہفتے سامنے آنے والی ایک اچھی خبر قرار دی جاسکتی ہے۔ تجارتی خسارے کے سرکاری اعدادوشمار سے پتہ چلتا ہے کہ جولائی میں خسارہ 50فیصد تک سکڑ کر 2.6 ارب ڈالر تک آگیا۔

حکومت کی جانب سے درآمدات پر پابندی اور ڈالر کے اخراج کو روکنے کیلئے حکومت کی جارحانہ پابندی کے بعد تجارتی خسارے میں کمی سے حکومت کو بھی سکھ کا سانس نصیب ہوا جبکہ وزیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل کو معاشی محاذ پر سخت فیصلوں کے باعث عوام کی شدید تنقید کا سامنا تھا۔

وزیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل کے خلاف تو خود مسلم لیگ (ن) کے اندر سے بھی آوازیں اٹھنا شروع ہوگئی تھیں جبکہ آئی ایم ایف کی جانب سے بھی مثبت خبریں سامنے آئیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکومت کی پالیسیاں مثبت ہیں جس پر عالمی مالیاتی فنڈ کی جانب سے زیادہ مناسب لہجے کی توقع کی جاسکتی ہے۔

منگل کے روز آئی ایم ایف نمائندے کے بیان کے مطابق قرض دینے سے قبل جائزے کیلئے درکار تمام عوامل مکمل ہوچکے جس سے سرمایہ کاروں کا اعتماد لوٹا اور ملک ڈیفالٹ سے کم از کم فی الوقت کافی دور چلا گیا جس میں عسکری قیادت کا کردار بھی اہم ہے۔

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے امریکا، متحدہ عرب امارات اور جنوبی عرب کے حکام کے ساتھ جو حالیہ رابطے کیے، ان سے بھی مارکیٹ میں مثبت امیدوں نے جنم لیا جو ڈالر کی اڑان رک جانے کی ایک بڑی وجہ قرار دی جارہی ہے۔

دریں اثناء ڈالر کی قدر جو 240 کا ہندسہ عبور کر گئی تھی، اب 220 روپے پر آگئی جبکہ حکومت ڈالر کی قیمت بڑھنے کے پیچھے سٹہ بازی کو قابو کرنے کیلئے بھی اقدامات اٹھا رہی ہے۔ اسٹیٹ بینک کے حالیہ نوٹیفکیشن سے ظاہر ہوتا ہے کہ فارن ایکسچینج کمپنیوں اور بینکوں کی نگرانی میں اضافہ کیا گیا ہے۔

اس تمام تر مثبت صورتحال کے مابین درآمدات میں 38 فیصد کمی بھی ایک اچھی خبر تھی تاہم برآمدات میں 31 فیصد کمی سے تجارتی خسارے میں مزید کمی کی امیدیں دم توڑتی دکھائی دیتی ہیں۔ کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ درآمدات میں کمی کا کریڈٹ اسٹیٹ بینک کو دینا چاہئے۔

مذکورہ تجزیہ کاروں کا فرمانا ہے کہ اسٹیٹ بینک کو کریڈٹ اس لیے دینا چاہئے کیونکہ اس کے لیٹر آف کریڈٹ کی جانچ میں اضافے اور درآمدی کوٹے کے نفاذ کی وجہ سے تجارتی خسارہ کم ہوا۔

بلاشبہ تجارتی خسارے کی کمی اپنے آپ میں ایک بہت اچھی خبر ہے چاہے اس کا کریڈٹ کسی کو بھی دیا جائے۔ مجموعی خسارے کو کنٹرول لانا کارنامے سے کم نہیں جبکہ پی ٹی آئی کی سابقہ حکومت پیٹرولیم مصنوعات قیمتوں کے آسمان چھونے سے قبل انہیں کنٹرول کرنے میں ناکام نظر آئی۔

اگرچہ مثالی صورتحال کے طور پر برآمدات میں اضافہ ضرور دیکھا گیا، تاہم اس وقت درآمدات و برآمدات کا توازن برقرار رکھنا حکومت کی ترجیح ہونی چاہئے۔ 

Related Posts