دنیا بھر میں مسلم مخالف رجحانات، اسلام دشمن تقاریر، جبر و تشدد اور مظلوم مسلمانوں پر حملوں کے ساتھ ساتھ قرآنِ پاک کی بے حرمتی اور رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخی جیسے واقعات بڑھ رہے ہیں جن کو اسلاموفوبیا کا نام دیا جاتا ہے اور اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے رکن ممالک میں ایسے واقعات پر تشویش حق بجانب بھی ہے۔
خاص طور پر نائن الیون کے بعد اسلاموفوبیا کا ناسور تیزی سے پھیلنے لگا جس کی وجہ یہ ہے کہ جس طریقے سے اسلام اور مسلمانوں کو دنیا میں پروجیکٹ کیا گیا، اس پر مسلمان ممالک کو آگہی کو فروغ دیتے ہوئے عوام میں یہ شعور اجاگر کرنا چاہئے تھا کہ دہشت گردی کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں بلکہ دنیا کا کوئی بھی مذہب دہشت گردی کو فروغ دینے کی بات نہیں کرتے اور اب ہو یہ رہا ہے کہ جب بھی دہشت گردی کا ذکر کیا جاتا ہے تو لوگ اپنے تصورات میں اسے مسلمانوں سے اور اسلام سے منسلک کرنا شروع کردیتے ہیں جس کی کوئی حقیقت نہیں۔
پاکستان نے اسلاموفوبیا کے خلاف عالمی دن منانے کیلئے او آئی سی کے 55 رکن ممالک کی جانب سے جنرل اسمبلی میں15 مارچ 2022ء کو قرارداد پیش کی اور متفقہ رائے سے یہ قرارداد منظور بھی ہوگئی اور اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ جو آگہی نائن الیون کے بعد سے او آئی سی کے رکن ممالک کی جانب سے دنیا کو دی جانی چاہئے تھی اور جو نہیں دی گئی، وہی آگہی اقوامِ متحدہ کے پلیٹ فارم سے دنیا کے سامنے رکھی جائے اور یونیورسل چارٹر سمیت عالمی قوانین کے تحت اقوامِ عالم کے تمام افراد بشمول مسلمانوں کو اپنی مرضی سے اسلام کے تحت زندگی گزارنے اور اپنے عقائد پر عملدرآمد کے جوحقوق حاصل ہیں ان حقوق کا تحفظ کیا جائے۔
سوال یہ ہے کہ اسلاموفوبیا کیا ہے؟ اقوامِ متحدہ کی اپنی بیان کردہ تعریف کے مطابق اسلاموفوبیا سے مراد دنیا بھرکے مسلمانوں کے خلاف وہ خوف اور نفرت ہے جو انہیں ڈرانے دھمکانے، ہراساں کرنے، بدسلوکی کرنے اور دیگر جرائم کا باعث بنے جس کا شکار مسلم اور غیر مسلم دونوں ہوسکتے ہیں اور یہ عمل آن لائن اور آف لائن دونوں طرح سامنے آسکتا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اسلاموفوبیا سے مراد وہ نفرت اور خوف کی فضا ہے جو مسلمانوں کے خلاف مختلف جرائم کا سبب بنتا ہے اور یہ جرائم بتدریج بڑھتے جارہے ہیں۔
مسلمانوں سے نفرت یعنی اسلاموفوبیا کے خلاف عالمی دن کے موقعے پر، جو ہر سال 15مارچ کو منایا جاتا ہے ، پاکستان کے مستقل مندوب نے15 مارچ 2024ء کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک اور قرارداد بھی پیش کی جس کے حق میں 115 ممالک نے ووٹ دئیے جبکہ 44 ممالک بشمول بھارت اور یورپی ممالک نے رائے شماری سے لاتعلقی کا فیصلہ کیا تاہم دنیا کا کوئی بھی ملک اس قرارداد کی مخالفت میں سامنے نہیں آیا۔ قرارداد میں اقوامِ متحدہ کے سربراہ سے اسلاموفوبیا کے تدارک کیلئے خصوصی نمائندے کے تقرر اور عالمی برادری سے اسلاموفوبیا سے نمٹنے کیلئے متفقہ اقدامات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
مقبوضہ کشمیر اور فلسطین میں ماضی میں جو انسانی خون بہا اور آج اسرائیل کی جانب سے تاریخِ انسانی کی جس بد ترین درندگی اور حیوانیت کا مظاہرہ کیا جارہا ہے جس کے نتیجے میں ہزاروں خواتین اور بچوں سمیت 31 ہزار سے زائد مظلوم فلسطینی شہید ہوگئے جن کا قصور صرف اتنا تھا کہ انہوں نے جذبہ ایمانی کے زور پر اسرائیل کی قابض فوج کے آگے ہتھیار ڈال کر ظالم کے آگے جھکنے اور غزہ کی پٹی چھوڑ کر دنیا کے کسی اور ملک میں جا کر پناہ لینے اور اپنی باقی زندگی غریب الوطن کے طور پر بسر کرنے سے انکار کردیا تھا۔
اسلاموفوبیا کے واقعات مہذب معاشروں میں خوف کی علامت بن چکے ہیں۔ مثال کےطور پر کینیڈا میں ایک جوان العمر شخص نے ایک پورے خاندان پر گاڑی چلا دی جس کے نتیجے میں بھاری جانی نقصان ہوا۔ پھر دنیا کے مختلف ممالک میں قرآنِ پاک کی بے ادبی اور گستاخانہ خاکوں کی اشاعت جیسے واقعات سامنے آئے جن کے پیچھے اگر عالمی استعمار اور مغربی ممالک کی جانب سے حکومتی مشینری اور طاقت کا استعمال نہ ہوتا تو شاید اسلاموفوبیا پر مبنی یہ واقعات کسی بھی صورت اس قدر نہ پھیلتے جتنے کہ آج پھیل رہے ہیں اور ان واقعات کو مزید ہوا دی جارہی ہے۔
خاص طور پر پاکستان کے ہمسایہ ملک بھارت میں دہلی فسادات ہوں یا گجرات کے فسادات اور اب سی اے اے نامی قانون جسے ایک بھارتی سیاسی جماعت کے مسلمان سربراہ اسد الدین اویسی نے بھارتی سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے کیونکہ ایسے کالے قوانین براہِ راست انسانی حقوق سے متصادم ہیں اور سی اے اے کے نفاذ سے بے شمار بھارتی شہریوں کو جن میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد شامل ہے، اپنی بھارتی شہریت سے دستبردار ہوکر غریب الوطن ہونا ہوگا، جس کے خلاف متاثرہ مسلمانوں کی جدوجہد اور قانونی لڑائی جاری ہے۔
اگر ہم اسلاموفوبیا کی وجوہات کی بات کریں تو نائن الیون کا واقعہ جس کا اوپر ذکر آچکا ہے اوردیگر ایسے بے شمار معاملات ہیں جن کا الزام مسلمانوں پر عائد کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر 7اکتوبر 2023 کو حماس نے اسرائیل پر ہزاروں راکٹ داغے اور مغربی میڈیا اس چیز کو جواز بنا کر پیش کرتا ہے کہ اگر حماس نے اسرائیل پر راکٹ نہ داغے ہوتے تو شاید آج غزہ کی صورتحال مختلف ہوتی ، تاہم یہ حقیقت نہیں ہے اور اگر حماس کی جانب سے راکٹ حملے ہوئے تو اس کی وجہ اسرائیل کا غزہ پر وہ غاصبانہ اور غیر قانونی قبضہ ہے جو گزشتہ 76سال سے جاری ہے۔
ضروری ہے کہ او آئی سی کے رکن ممالک سر جوڑ کر بیٹھیں اور اسلاموفوبیا کا تدارک کرنے کیلئے اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے ساتھ ساتھ سلامتی کونسل تک بھی اپنی رسائی یقینی بنائیں اور دنیا کے دیگر پلیٹ فارمز پر ہم آواز ہو کر اسلاموفوبیا کے تدارک کیلئے متحرک کردار ادا ،کریں، تاکہ آنے والے وقت میں اسلاموفوبیا او آئی سی ممالک کیلئے ناقابلِ تسخیر چیلنج نہ بن جائے، کیونکہ اگر ایسا ہوا تو بقول اقبالؔ:
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں