راولپنڈی رنگ روڈاسکینڈل،زلفی بخاری کااستعفیٰ اوراحتساب کے نعرے، انصاف کون کرے گا؟

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

راولپنڈی رنگ روڈاسکینڈل،زلفی بخاری کااستعفیٰ اوراحتساب کے نعرے، انصاف کون کرے گا؟
راولپنڈی رنگ روڈاسکینڈل،زلفی بخاری کااستعفیٰ اوراحتساب کے نعرے، انصاف کون کرے گا؟

راولپنڈی رنگ روڈ اسکینڈل میں اربوں کی کرپشن ہوئی جس میں زلفی بخاری، وزیرِ ہوابازی غلام سرور، وزیرِ اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اور دیگر بڑے ناموں کا ذکر ملتا ہے۔ 

 آئیے احتساب کے نعرے بلند کرنے والی تحریکِ انصاف کی وفاقی حکومت کے دور میں سامنے آنے والے اس اسکینڈل کا جائزہ لیتے ہیں اور یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ انصاف کون کرے گا؟

وزیرِ اعظم کا فیصلہ اور رنگ روڈ منصوبہ 

دراصل رنگ روڈ اسکینڈل منظرِ عام پر لانے والے خود وزیرِ اعظم ہیں۔ معروف صحافی جاوید چوہدری کے مطابق وزیرِ اعظم کے ایک دوست نے ان سے ملاقات کے دوران کہا کہ  پاناما اسکینڈل آپ کے خلاف بھی بن چکا ہے، حکومت ختم ہونے کے بعد راولپنڈی رنگ روڈ کا کیس ہی آپ کیلئے کافی ہوگا۔

مذکورہ دوست نے وزیرِ اعظم کو ابتدائی معلومات مہیا کیں اور وزیرِ اعظم نے تحقیقات کے بعد کیپٹن محمود سے سوال کیا کہ آپ کو راولپنڈی رنگ روڈ کا روٹ بدل کر اٹک لوپ شامل کرنے سے متعلق مشورہ کس سے ملا؟ انہوں نے کہا کہ کسی سے نہیں۔

دوسری جانب وزیرِ اعظم کو تحقیقاتی رپورٹس سے یہ علم ہوچکا تھا کہ وزیرِ ہوا بازی غلام سرور خان اور زلفی بخاری نے کمشنر راولپنڈی پر اثر انداز ہو کر 10 ہاؤسنگ سوسائٹیز کو چند ماہ میں اربوں روپے غیر قانونی طور پر کمانے کا موقع دیا۔

کیپٹن محمود کے انکار پر وزیرِ اعظم کو پختہ یقین ہوگیا کہ اربوں روپے کی بدعنوانی ہوئی ہے جس پر کمشنر، ڈپٹی کمشنر، ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ریونیو اور اسسٹنٹ کمشنر صدر کو عہدوں سے فارغ کردیا گیا۔ گلزار حسین شاہ کمشنر راولپنڈی مقرر ہوئے جنہیں رنگ روڈ منصوبے کی انکوائری کا حکم ملا اور آج سے 7 روز قبل یعنی 11 مئی کو تحقیقاتی رپورٹ سامنے آئی۔

کمشنر گلزار حسین کی رپورٹ اور انکشافات

یہ رپورٹ پورے ملک کو ہلا دینے کیلئے کافی ہے۔ سن 2017ء میں 40 کلومیٹر کی راولپنڈی رنگ روڈ کیلئے بینک آف چائنہ سے 40 کروڑ ڈالر قرض کی منظوری لی گئی لیکن شہباز شریف حکومت سے ہاتھ دھو بیٹھے اور منصوبہ داخلِ دفتر کردیا گیا۔

تحریکِ انصاف کی حکومت میں پھر رنگ روڈ منصوبہ فعال ہوا، اس میں 26 کلومیٹر کا غیر معمولی اضافہ اور اٹک لوپ  کے علاوہ اسلام آباد کے 2 سیکٹر بھی شامل کرکے یہ کہا جانے لگا کہ ملک کو غیرملکی قرضوں کی ضرورت نہیں رہی۔

کہا گیا کہ کمپنیاں اپنی جیب سے 66 کلومیٹر طویل سڑک بنا کر ٹول ٹیکس شیئرنگ سے سرمایہ کاری واپس حاصل کرسکیں گی تاہم منصوبے کا مقصد رنگ روڈ بنانے کی بجائے 10 ہاؤسنگ سوسائٹیوں کو کھربوں روپے کی ناجائز آمدنی فراہم کرنا تھا۔ راتوں رات نوا سٹی کے نام سے ایک ہاؤسنگ سوسائٹی رجسٹر کر لی گئی۔

یہ سوسائٹی 970 کنال زمین رکھتی تھی لیکن مالک جنید چوہدری نے 30 ہزار فائلیں بنا کر مارکیٹ میں فروخت کیں۔ وزیرِ ہوا بازی کے صاحبزادے منصور خان شراکت دار ہیں۔ فائلیں بیچ کر صرف 1 ایجنٹ نے 34 کروڑ 1 ماہ میں کمائے۔ باقی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

تحقیقات سے پتہ چلا کہ نیو ائیرپورٹ سوسائٹی نے بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے۔ ان کی کمپنی الآصف ڈویلپر کے علاوہ لائف اسٹائل کے نام سے جنید چوہدری کی ایک دوسری کمپنی نے بھی تھوڑی سی زمینیں خرید کر فائلیں فروخت کیں اور بھرپور پیسے کمائے۔ حبیب رفیق گروپ نے مورت انٹرچینچ رنگ روڈ میں شامل کرکےاسمارٹ سٹی کے نام سے خوب سیلز کیں۔

خود کمشنر کیپٹن محمود ٹاپ سٹی ہاؤسنگ اسکیم کے بے نامی حصے دار نکلے جس کے مالکان اربوں روپے ہڑپ کر گئے۔ بلیو ورلڈ سٹی، اسلام آباد کو آپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی، میجر جنرل (ر) سلیم اسحاق، کرنل (ر) عاصم ابراہیم پراچہ اور کرنل (ر) مسعود، اتحاد ہاؤسنگ سوسائٹی اور زلفی بخاری کے رشتہ داروں کی زمینوں کا ذکر بھی تحقیقاتی رپورٹ میں شامل ہے۔

بدعنوانی کا طریقۂ کار 

ہوتا کچھ یوں ہے کہ ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالکان بیوروکریٹس اور سیاستدانوں کے ساتھ مل کر کاغذوں پر ہی شہر تعمیر کرکے پلاٹوں کی فائلیں بیچ دیتے ہیں جن سے اربوں روپے جمع ہوجاتے ہیں۔ لوگ سستے پلاٹس اور اپنے گھر کی امید پر عمر بھر کی جمع پونجی سے محروم ہوجاتے ہیں۔ یہی راولپنڈی رنگ روڈ منصوبے کی اصل کہانی ہے۔ 

موجودہ صورتحال 

نوا سٹی کے مالک جنید چوہدری کے وزیرِ اعظم کے معاونِ خصوصی اور 2 وفاقی وزراء سے تعلقات ثابت ہوچکے ہیں۔تحقیقات سے کیپٹل اسمارٹ سٹی، نیو ائیرپورٹ سوسائٹی، بلیو ورلڈ، اتحاد سٹی اور دیگر کے خلاف ثبوت جمع کیے جارہے ہیں۔ وزیرِ اعظم نے ہدایت کی ہے کہ تمام ملزمان کو گرفتار کیا جائے اور عوام کو ان کی رقوم واپس دلائی جائیں کیونکہ کوئی شخص قانون سے بالاتر نہیں۔

Related Posts