جنسی جرائم روکنے کیلئے سزاؤں پر عمل ناگزیر ہے

مقبول خبریں

کالمز

"Conspiracies of the Elites Exposed!"
سرمایہ داروں کی خوشحالی، عوام کی غربت، پاکستان کی معیشت کا کھلا تضاد
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

 پاکستان میں جنسی زیادتی کے واقعات میں روز بروز اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے،کہیں بنت ہوا ہوس زدہ جنسی درندوں کی ہوس کی بھینٹ چڑھ رہی ہے تو کہیں تعلیمی اداروں میں بچوں اور نوجوانوں کو لواطت کا نشانہ بنانے کے واقعات نے پاکستانی معاشرے پر انتہائی بدنما داغ چھوڑے ہیں۔ایسا نہیں کہ پاکستان میں جنسی جرائم پہلے نہیں تھے ، لیکن اب ملک میں جنسی جرائم کئی گنابڑھ چکے ہیں جن کا سدباب ضروری ہے۔

اس حوالے سے چند تجاویز پر عمل کرکے مسئلے پر قابو پایا جاسکتا ہے، پاکستان میں ہونیوالے جنسی جرائم میں اضافے کی بڑی وجہ سزاؤں پر عملدرآمد نہ ہونا ہے، اسلام میں ہر جرم کی سزاء متعین ہے اور ریاست پاکستان کا قانون بھی جنسی جرائم پر سزاء دینے کاروادار ہے لیکن مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب مجرموں کو سزائیں نہیں دی جاتیں اور کمزور دفعات کی بناء پر لوگ سزاء سے بچ کر دوبارہ انہیں جرائم کا ارتکا ب کرتے ہیں۔

اسلام دین فطرت ہے اس میں تمام امور کے بارے میں رہنمائی ملتی ہے۔ حقوق و فرائض کی رہنمائی کرنے والا یہ دین ایک مکمل ضابطہ حیات رکھتا ہے۔

اسی سبب قرآن وسنت میں قیامت تک ہونے والے جرائم کی سزا کے بارے میں ہمیں رہنمائی ملتی ہے۔ ضرورت صرف اس چشم بینا کی ہے جس کو کھولنے کا ذکر قرآن میں بار بار آیا ہے ۔زناشرک کے بعد سب سے بڑا گناہ ہے اور اسلام میں اس کے مرتکب کے لیے سخت سزائیں متعین کی گئی ہیں۔

ہمیں جنسی جرائم میں ملوث لوگوں کو شریعت اور ملکی قانون کے مطابق سخت سے سخت سزائیں  دینے اورجنسی طور پر ہراساں کرنے اور بدسلوکی کے معاملات پر ہمیں بیدار ہونے کی ضرورت ہے، ہم بحیثیت قوم اجتماعی طور پر اس طرح کی کارروائیوں کی مذمت کرتے ہیں لیکن ریاست کو بھی اس مسئلے کا فوری حل تلاش کرنے کے لئے کام کرنا چاہئے۔کوئی بھی مذہب اس طرح کے غلط کاموں کی تعلیم نہیں دیتا، لیکن جب تک ہم ان مجرموں کو ذمہ دار نہیں ٹھہراتے ہم زندگیوں کو بنیادی طور پر تباہ کرتے رہیں گے۔

پاکستان میں مسلمان ہوں یا مسیحی، ہندو ہوں یا سکھ ہر مذہب و مسلک کے ماننے والے مسائل سے دوچار ہیں اور جنسی جرائم کرنے والے کسی مذہب یا رنگ و نسل کے بجائے صرف و صرف اپنی جنسی جبلت کے زیر اثر کسی بھی انسان کو نشانہ بنانے سے نہیں چوکتے۔

ایسے میں تمام مذاہب کے پیروکاروں کو ملکر اس مسئلے کے حل کیلئے اقدامات کرنے چاہئیں اور حکومت کو بھی درسگاہوں میں نگرانی کا نظام قائم کرنا چاہیے تاکہ حصول تعلیم کی خواہش لیکر آنے والوں کو جنسی درندگی سے بچایا جاسکے۔

تمام مذہب کے ماننے والوں کو اپنے اپنے دائرہ کار میں اپنے پیروکاروں کو تعلیم دینے کیلئے کمیٹیاں  بنائی جائیں اور لوگوں جو جنسی جرائم سے روکنے اور بچنے کیلئے تعلیم دی جائےتاکہ جنسی جرائم کو روکا جاسکے۔

Related Posts