ملک بھر میں سابق حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کی طوفان خیز اٹھان کے بعد اسی تیزی سے اینٹی کلائمکس کا عمل جاری ہے۔
ایسا لگ رہا ہے کہ جناب عمران خان کی گرفتاری پر احتجاج کے نام پر نو مئی کو ظہور پذیر ہونے والے انتہائی پر تشدد واقعات پی ٹی آئی کیلئے نائن الیون کا سانحہ بن گئے ہیں، چنانچہ کچھ عرصہ قبل جس طرح کے خاص ہیجانی ماحول میں جارحانہ ”بالنگ“ کے ذریعے دیگر جماعتوں کی ”وکٹیں“ گرا کر تحریک انصاف کی لاجسٹکس میں اضاضے کا بندوبست کیا گیا تھا، نو مئی کے نائن الیون نے پی ٹی آئی کیخلاف اسی انداز میں اینٹی کلائمکس کا ماحول بنا دیا ہے، جس کے نتیجے میں آج تحریک انصاف کو سیاسی پت جھڑ کے بے رحم موسم نے اپنی گرفت میں لے رکھا ہے اور ایک ایک کرکے اس کے عناصر ترکیبی ٹوٹ کر بکھر رہے ہیں۔
نو مئی کو ملک کے طول و عرض میں جب ہر طرف مار دھاڑ کا گرد و باد چلا اور بطور خاص ملک میں ہر نمایاں فوجی نشان اور تنصیب کو ہدف بنایا گیا، تو ایسے لگ رہا تھا جیسے اس خود معاملہ ہجوم کو برسوں سے اسی مقصد کیلئے ذہنی طور پر تیار کیا گیا ہے اور اب یہ مشتعل اور آمادہ پیکار ہجوم فیصلہ کن موقع سمجھتے ہوئے ایک ہی دن میں سارا ”حساب“ بے باق کرنے کے درپے ہے۔
ستم بالائے ستم یہ کہ سوشل میڈیا جو پی ٹی آئی کا ایک موثر ہتھیار ہے، پر اس احمقانہ گھر پھونک تماشے کے مناظر کو فخریہ پوسٹ کرکے یہ باور کرانے کی کوشش کی جاتی رہی کہ یہ ایک سیاسی جماعت کی عوامی طاقت کا مظاہرہ ہے اور اس عوامی قوت کے سامنے کوئی دوسری طاقت یہاں تک کہ پوری ریاست بھی نہیں ٹک سکتی۔
یہ سب طویل عرصے کی اس ذہن سازی اور محنت کا نتیجہ تھا جس میں اپنے سیاسی لیڈر کو ”ریڈ لائن“ باور کرکے گویا مافیا طرز پر لکیر کھینچی جا رہی تھی کہ اسے عبور کرنے کی صورت میں کسی کو معاف نہیں کیا جائے گا۔
ذہن سازی کے کئی ماہ سے جاری اس عمل میں بطور خاص ملکی دفاعی اداروں کو ہدف بنایا جا رہا تھا۔ اس مہم کو موثر بنانے کیلئے رژیم چینج سازش کا مفروضہ گھڑا گیا اور دفاعی اداروں کو اس مفروضہ بیرونی ساختہ آپریشن کا ایک کردار بتا کر ”غداری“ کے جرم میں کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا رہا۔ آج پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ اور معتوب سیاسی رہنما عمران خان بڑی معصومیت سے پوچھ رہے ہیں کہ آخر مقتدرہ ان سے کس بات پر ناراض ہے؟ وہ شاید بھول رہے ہیں کہ اپنی حکومت گرائے جانے کے بعد مسلسل ایک سال سے زیادہ عرصے سے وہ اپنی پارٹی کے ذریعے دفاعی اداروں کو جس طرح نفرت اور عناد کا نشانہ بناتے چلے آ رہے ہیں آج انہیں جس ناراضی کا گلہ ہے، وہ اسی غیر سنجیدہ منفی مہم جوئی کا ہی کیا دھرا ہے۔
نو مئی کو موقع ملتے ہی ایک سال کی ”محنت“ جس تباہ کن انداز میں سامنے آئی، اس نے ملکی سلامتی کے اداروں پر واضح کر دیا کہ نفرت اور انتشار پھیلانے والوں کو مزید ڈھیل اور مہلت دینا ملک و قوم کو کسی ایسے حادثے کی طرف لے جاسکتا ہے جس کی تلافی آسان نہ ہوگی اور معاملات قابو سے باہر ہوجائیں گے۔
نو مئی کو ملک کے طول وعرض میں جس طرح وحشت و دہشت کا بے باکانہ مظاہرہ کیا گیا وہ کسی صورت بھی ایک پر امن سیاسی اور جمہوری جماعت کے شایان شان نہیں تھا۔ سیاسی لیڈروں کی دار و گیر اور قید و بند ملکی سیاست میں کوئی انوکھا واقعہ نہیں۔ پرانی سیاسی جماعتوں میں کوئی جماعت ایسی نہیں جس نے مختلف ادوار میں سیاسی بنیادوں پر جبر و عتاب نہ سہا ہو۔ یہاں تک کہ سیاسی رہنماوں کو طویل عرصے تک جیلیں اور پھانسیاں دی گئیں اور سیاسی کارکنوں کو کوڑے تک مارے جاتے رہے، مگر کسی سیاسی جماعت نے ان سختیوں اور جبر ناروا کے مقابل ”ریڈ لائن“ کھینچ کر کبھی اس انداز میں محاذ آرائی نہیں کی، جیسے بد قسمتی سے تحریک انصاف کی جانب سے نو مئی کو ملک بھر میں سامنے آیا۔
اس دن جو کچھ ہوا، وہ محض ایک اتفاقی حادثہ ہوتا تو اس سے معمولی سز و جزا کے بعد صرف نظر کیا جاسکتا تھا، مگر بد قسمتی سے نو مئی کو جو کچھ ہوا، اس کے پیچھے انتشار، عناد، نفرت اور انتقام کا پورا بیانیہ کارفرما رہا ہے اور اس بات کا خطرہ موجود ہے کہ جب تک اس نفرت انگیز بیانیے اور گمراہ کن نظریے کا تسلی بخش علاج نہ کیا جائے، آئندہ بھی اس کی بنیاد پر نو مئی جیسی حشر سامانی دیکھنا پڑ سکتی ہے۔
انتشار، نفرت، عداوت، ضد، انا اور عدم برداشت کی سیاست نہ صرف ملکی سیاست کیلئے خطرناک ہے، بلکہ اس کے زہر نے پورے سماج کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اپنے مخصوص نظریات اور خاص ترجیحات کی بنیاد پر سماج میں لکیر کھینچ دینے کے باعث معاشرے میں بڑے پیمانے پر منافرت سرایت کر چکی ہے۔ عالم یہ ہے کہ سیاسی اختلاف کی بنا پر قتل و خون تک کے المناک واقعات پیش آچکے ہیں۔
علاوہ ازیں سیاسی اختلاف کو عداوت کی سان چڑھانے کے نتیجے میں آئے دن سماجی رابطوں کی ویب سائٹس اور گلی محلوں میں لڑائی جھگڑے معمول بن گئے ہیں۔ سیاسی مخالفین کو گلی بازاروں میں پکڑ کر نفرت اور گالم گلوچ کا نشانہ بنایا جاتا ہے، جس نے ملک کا تماشا بنا دیا ہے۔
اہل نظر نے بارہا سمجھایا کہ اختلافات کو اس حد تک نہیں لے جانا چاہیے، مگر بد قسمتی سے غیر جانبدار ناصحین تک کو نہ بخشا گیا اور انہیں جانور کہہ کر ذلیل کیا گیا۔ نفرت، عداوت اور مخالفت کی اس سیاست نے ملک کا استحکام بھی بری طرح تباہ کرکے رکھ دیا ہے، جو معاشی ابتری کا بھی ایک اہم سبب ہے۔ یہ طے ہے کہ اب ملک کو آگے لے جانے کیلئے اس انتہا پسندانہ طرز سیاست کی بساط لپیٹنا ضروری ہے۔ یہ سلسلہ نہ رکا تو ملک میں امن و استحکام طویل عرصے تک خواب ہی رہے گا اور انہی لڑائیوں میں ملک کا وقت اور سرمایہ برباد ہوتا رہے گا۔
یہ واضح ہے کہ تحریک انصاف کو اس کی اپنی ہی شدت پسندی اور عدم برداشت پر مبنی طرز سیاست نے یہ دن دکھائے ہیں، تحریک انصاف نے اپنی فعالیت کے تمام تر دورانئے میں اتنے دشمن بنائے کہ آج جب اس پر ٹوٹ پھوٹ طاری ہے تو اس کے ساتھ ہمدردی کے دو بول بولنے کیلئے بھی کوئی میسر نہیں ہے۔ اس لیے نہیں کہ جو کچھ اس کے ساتھ ہو رہا ہے، اس کو جائز سمجھا جا رہا ہے، بلکہ زیادہ تر خاموش رہنے والوں کےلئے یہ خوف تحریک انصاف کے حق میں بات کرنے سے مانع ہے کہ اسے موقع ملا تو یہ پھر پہلے کی طرح ان کے گریبان سے الجھے گی۔
نو مئی کے پر تشدد واقعات ہوں یا ایسے واقعات کے پس پردہ انتہا پسندانہ نظریات، ذمے داروں کا کڑا احتساب ہونا چاہیے، تاہم یہ ضرور ہے کہ کوئی بھی قدم اور کارروائی عدل و انصاف کے دائرے میں ہی ہونی چاہیے۔ یہ بھی پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ تحریک انصاف بہرحال ایک سیاسی جماعت ہے اور سیاسی جماعتوں کو طاقت کے زور پر یکلخت ختم نہیں کیا جاسکتا۔
تحریک انصاف کے عروج کے بعد اینٹی کلائمکس کا یہ سفر بہرحال اذیت ناک ہونے کے ساتھ ساتھ اہل نظر کیلئے عبرت اثر بھی ہے۔ تحریک انصاف کے عروج و زوال کے اس سفر سے یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ عدم برداشت اور نفرت کی سیاست کو استقلال اور دوام نصیب نہیں ہوتا۔ یہ تمام سیاسی کارکنوں کیلئے بھی سبق ہے کہ وہ اپنے اختلاف کو اعتدال و توازن کے دائرے میں ہی رکھیں۔ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سیاست کوئی موت و حیات کی کش مکش نہیں، بلکہ ملک کی خدمت کیلئے محض ترجیحات کے اختلاف کا میدان ہے، اس سے زیادہ سیاسی اختلاف کو اپنے اعصاب پر سوار کرنا قوم کے ساتھ زیادتی ہے۔ بہرکیف یہ وقت پوری قوم کیلئے وقار اور تحمل کے ساتھ جاری واقعات سے سبق حاصل کرنے کا ہے، یہ سبق روز غروب ہوتا سورج بھی دیتا ہے، مگر سبق بھلا کون سیکھتا ہے۔
ڈوبتے سورج کو وقت شام دیکھ
حسن والے حسن کا انجام دیکھ