غزہ کے معاملے پر ہر شخص افسوس کا اظہار کرتا ہے، کیونکہ یہ معاملہ انتہائی افسوسناک ہے کہ معصوم بچے یہودیوں کی سیاست کا شکار ہورہے ہیں۔
یہودیوں کے بچوں نے جو تعلیم یافتہ تھے، انہوں نے بھی امریکا میں اس بات پر تنقید کی کہ غزہ میں معصوم بچوں کے قتل و غارت اور ظلم و تشدد کو روکا جائے۔ اور اب ایسے افسوسناک حالات پیدا ہوچکے ہیں کہ ہر صاحبِ اولاد کا دل تڑپ اٹھتا ہے جب وہ غزہ سے سامنے آنے والی تصاویر اور ویڈیوز دیکھتا ہے۔
پاکستانیوں کا احتجاج صرف کے ایف سی اور مکڈونلڈز تک محدود کیوں رہا؟ کیا ہم پاکستانی یہ احساس رکھتے ہیں کہ ایک جگہ جہاں ہم کے ایف سی اور مکڈونلڈز کی چیزوں کے بائیکاٹ کا کہہ رہے ہیں، دوسری جگہ ہم پی ایس ایل 10 کا جشن منانے کی تیاریاں کر رہے ہیں اور وہ بھی اس وقت جب غزہ کے بچے ہم سے یہ سوال کرتے ہیں کہ اگر آپ کے اپنے بچے مر رہے ہوتے تو کیا اس افسوسناک موقعے پر بھی آپ پی ایس ایل کا میچ دیکھ رہے ہوتے اور علی ظفر کا گیت سن رہے ہوتے اور جشن مناتے؟
ہم ایک جگہ تو احتجاج کرتے ہیں، دوسری جگہ جشن منایا جاتا ہے۔ یہ دوغلا پن کیوں؟ اگر واقعی ہمیں فلسطینیوں کی شہادتوں پر افسوس ہے اور واقعی ہم ان کو اپنا بھائی اور بہن سمجھتے ہیں تو ہمیں کسی قسم کا بھی جشن نہیں منانا چاہئے۔
یہ بالکل سامنے کی بات ہے کہ جب اے پی ایس کا واقعہ ہوا تو پوری دنیا نے پاکستان کے ساتھ تعزیت کی۔ اس دوران کوئی جشن نہیں منا رہا تھا۔ کسی بھی قسم کے بھی کرکٹ کے میچز نہیں کھیلے جارہے تھے، نہ ہی میوزیکل پروگرامز منعقد کیے جارہے تھے۔
ہم نے کرکٹ کو آج کل اربوں روپے کا کاروبار بنا لیا ہے اور اپنے کاروبار کے وقت نہ ہمیں یہودیوں کا ظلم نظر آتا ہے، نہ فلسطینیوں سے کوئی ہمدردی محسوس ہوتی ہے۔ ہم وہ قوم ہیں جو غزہ کے مظلوم لوگوں کے نام پر بھی کاروبار کرتے ہیں۔ اس کی مثال کچھ اس طرح دی جاسکتی ہے کہ جیسے ہی عوام نے یہودیوں سے تعلق رکھنے والے کاروبار کا بائیکاٹ کیا تو ان کے مقابلے میں مسلمان کمپنیوں نے خوب فائدہ اٹھایا۔
مسلمان کمپنیوں نے اپنی اشیا کی قیمتوں بڑھا دیں۔ کیا یہ اسلام اور انسانیت ہے؟ کیا اسی کو مسلمان کہتے ہیں؟ میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہم سچے مسلمان ہوتے اور اچھے انسان ہوتے تو ہمیں اپنے اعمال کے ذریعے سے دنیا کو یہ بتانا ہوگا کہ مسلمان کی پہچان اس کی اچھائیوں اور نیکیوں میں ہوا کرتی ہے۔
اچھائی الفاظ سے نہیں بلکہ آنکھوں میں نظر آنی چاہئے۔ ہمارے ہاں اچھائی صرف فیس بک، ٹوئٹر اور مختلف سوشل میڈیا پوسٹوں پر الفاظوں میں نظر آتی ہے جسے بھرپور انداز میں سراہا جاتا ہے اور بہت زیادہ لائیکس ملتے ہیں۔ دوسری جانب وہ علما اچھی باتوں کو استعمال کرکے ویڈیوز بنا کر اسے کاروبار کا ذریعہ بنالیتے ہیں۔ آج ایسے علما کروڑوں اربوں روپے کما رہے ہیں۔
دین کو پڑھانے اور سکھانے کیلئے اجرت لینا مناسب نہیں ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جب آپ کسی کو دینی تعلیم دے رہے ہوں تو وہ آپ اللہ کی راہ میں دے رہے ہوتے ہیں اور اللہ کی راہ میں کی جانے والی نیکیوں کی قیمت لینا مسلمان کو زیب نہیں دیتا۔ مگر آج پیسے کی دنیا میں ہر چیز پیسے سے بک رہی ہے اور خریدی جارہی ہے۔
کہیں رمضان ٹرانسمیشن میں خوبصورت خواتین کی نمائش کی جاتی ہے تو کہیں مولانا کے وظیفوں کے ذریعے یہ کھیل کھیلا جاتا ہے اور یہ کئی سالوں سے چلتا آرہا ہے۔ اسی کھیل کو سیاست دان بھی اپنے مفاد میں استعمال کرتے ہیں اور مذہب کے نام پر سیاست کرتے ہوئے کئی بار نظر بھی آجاتے ہیں۔
مذہب کو اپنے مفاد کیلئے استعمال کرنا چھوڑ دیں۔ مذہب انسان کو بہتری کی جانب لے جاتا ہے۔ انسانیت کی جانب لے جاتا ہے۔ اللہ کی راہ کی جانب لے جاتا ہے۔ جو انسان مذہب کو انسانیت کی طرف لے جائے، اور انسانیت کیلئے کام کرے تو وہ شخص دین اور دنیا دونوں حاصل کرلیتا ہے۔
ہمارا مذہب تو اس بات کا علمبردار ہے کہ انسانیت کے دشمن ہمارے دشمن ہیں۔ ہمارے مذہب نے تو ہمیشہ انسانیت سے محبت کی ہے اور یہ وہ مذہب ہے جس کی وجہ سے آپ کو دین اور دنیا دونوں ملتی ہیں۔
ہم نے دین کو بھی سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے قرآنِ پاک کو ہمیشہ بلند الماریوں کی زینت بنایا۔ کبھی اسے پڑھ کر ، سمجھ کر اس پر عمل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ ہم انگریزی اسکولوں کی تعلیم کیلئے تو لاکھوں روپے خرچ کردیتے ہیں اور اسے اپنے بچوں کا بہتر مستقبل سمجھتے ہیں جبکہ ہمارے بچوں کا اور ہمارا مستقبل اسی وقت روشن اور بہتر ہوسکتا ہے جب ہم قرآن، حدیث اور سنتوں کو پڑھیں، سمجھیں اور ان پر عمل کریں۔
ہماری آنکھیں بند کرکے ہم سمجھتے ہیں کہ سب ٹھیک ہے۔ ہم انگریزوں کو برا ضرور کہتے ہیں مگر سبھی ان انگریزوں کے ممالک میں جانے کیلئے بے چین ہیں اور سبھی انہی کی دی ہوئی کتابیں پڑھتے اور تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ آج انگریز ہماری ہماری مذہب کی تعلیم کی وجہ سے ترقی کر رہا ہے اور ہم اسے نہ پڑھ کر اور نہ سمجھ کر مصیبتوں کے پہاڑ اپنے اوپر لاد چکے ہیں۔
جب تک ہمارے بچوں کو ہم دین کی تعلیم کی اہمیت نہیں بتائیں گے اور انہیں قرآن و حدیث اور سنت کی تعلیم نہیں دیں گے، اس وقت تک آگے جا کر ہمارے پاس نہ تو کوئی ایماندار افسر ہوگا، نہ تو کوئی ایماندار کاروباری شخص یا سیاست دان ہوگا۔ ہم سب اپنی اس خوبصورت دنیا کو ایک بد ترین جنگل بنا دیں گے جہاں ہر جانور ایک دوسرے کا دشمن اور ایک دوسرے کو کھانے کی کوشش کرتا ہے۔
ہم اشرف المخلوقات ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ سب سے پہلے اللہ کی رضا کے بارے میں سوچیں۔ نبی پاک ﷺ کی سنتوں پر عمل کرنے کی کوشش کریں اور انسانیت کی بقا کیلئے، لوگوں کیلئے اسی طرح اچھا سوچیں جیسا کہ ہم اپنے لیے سوچتے ہیں، تب کہیں جا کر ہم کہہ سکیں گے کہ ہم اچھے انسان ہیں۔
اگر غزہ کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرنا ہے تو ان بچوں اور ماؤں کی چیخوں اور ان میں پوشیدہ درد کا احساس کرنا ہوگا اور پی ایس ایل جیسی مواقع کا بائیکاٹ کرنا ہوگا تاکہ کل کو کوئی باہر کا یہودی ہم پر تنقید نہ کرسکے کہ یہ لوگ خود تو خوشیاں مناتے ہیں اور ہم پر تنقید کرتے ہیں۔
ہم کس منہ سے اپنے غزہ کے بھائی بہنوں کے پاس جائیں گے جب وہ ہم سے سوال کریں گے کہ جب ہمارے بچے مر رہے تھے تو آپ لوگ پی ایس ایل جیسے مواقع پر ہلہ گلہ کرکے کرکٹ میچز کے مزے لے رہے تھے؟ آپ پی ایس ایل کے ترانے پر رقص کر رہے تھے۔ ہم نے انسانیت کیلئے سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں۔ اسی لیے ہمیں سب سے پہلے یہ احساس کرنا ہوگا کیونکہ آج بھی ہمارے دلوں کے زخم بھرے نہیں ہیں کیونکہ آج بھی اے پی ایس کے بچوں کو یاد کرتے ہیں جنہوں نے ہمیں شہید ہو کر یہ سکھایا کہ حق اور انسانیت کیلئے کسی سے نہ ڈریں۔
اگر ہم اچھے مسلمان ہیں ، اچھے انسان ہیں، اچھے پاکستانی ہیں تو ہمیں ہر اس مظلوم کے ساتھ کھڑا ہونا پڑے گا جس پر ظلم ہورہا ہو۔ چاہے وہ کسی بھی ملک یا مذہب سے تعلق رکھتا ہو۔ مسلمان ظلم کے خلاف کھڑے ہونے والے شخص کا نام ہوتا ہے۔