ایران میں احتجاج

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

مہسا امینی کی المناک موت کے بعد ایران میں مظاہرے پھوٹ پڑے ہیں۔ 22 سالہ نوجوان لڑکی کی ایران میں خصوصی پولیس یونٹ کی تحویل میں انتہائی مشکوک حالات میں موت ایک قابل مذمت واقعہ تھا، جس سے شروع میں ایرانی نمائندوں کو مناسب طریقے سے نمٹنا چاہیے تھا۔مہسا امینی کی موت پر عوام میں غم و غصہ بڑھنے کی ایک یہ بھی تھی کہ جو رویہ ایرانی پولیس نے مظاہروں کے دوران اپنایا۔بین الاقوامی سطح پر بھی اس معاملے پر رد عمل سامنے آیا ہے۔

ایرانی میڈیا کے مطابق احتجاج کے دوران مزید 6افراد جاں بحق ہوگئے ہیں، مزید برآں، ایران نے مبینہ طور پر مظاہروں کی کوریج کو روکنے کے لیے سوشل میڈیا نیٹ ورکس انسٹاگرام اور واٹس ایپ تک رسائی کو روک دیا ہے۔ایرانی حکومت کے لیے یہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔ایرانی حکومت کی جانب سے خواتین کے خلاف اس طرح کے اقدامات اور رویے اکثر و بیشتر سامنے آتے رہتے ہیں۔

ایرانی حکومت کو ان متنازعہ قوانین پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے جو بہت زیادہ غم اور تشدد کا سبب بنے ہوئے ہیں۔نئی ایرانی حکومت نے 2021 میں مزید پابندیاں عائد کردی ہیں، ان قوانین کا نتیجہ بڑی صورت میں سامنے آتا ہے اوراس نوجوان خاتون کی موت جیسے افسوس ناک واقعات کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ حتیٰ کہ ایرانی حکومتی شخصیات نے بھی ان قوانین میں خامیوں کا اعتراف کیا ہے۔ایرانی ارکان پارلیمنٹ نے خصوصی یونٹ کو محدود کرنے کی رائے دی ہے اور کہا ہے کہ پولیس یونٹ کے طرز عمل کی تحقیقات ہونی چاہئیں۔

ایسے نازک معاملے میں، جب معاشرہ ایک نوجوان خاتون کی المناک موت سے بجا طور پر غصے میں ہے۔ پولیس کو اپنے طرز عمل میں احتیاط برتنی چاہیے، اور ایسے قوانین میں ترمیم کی ضرورت ہے جو اختلاف کا باعث بنیں۔ مظاہرین پر طیش میں آنا یا مواصلاتی چینلز پر پابندی لگانا صرف تنازعات اور غم و غصے کے شعلوں کو ہوا دیتا ہے۔

Related Posts