مشرق وسطیٰ میں بڑی جنگ کے امکانات/ پہلی قسط

کالمز

zia
بربرا: پیرس کی شہزادی
"A Karachi Journalist's Heartfelt Plea to the Pakistan Army"
کراچی کے صحافی کی عسکری قیادت سے اپیل
zia-2-1
حریدیم کے ہاتھوں اسرائیل کا خاتمہ قریب!

ایران اور اسرائیل کا معاملہ اتنا سادہ نہیں جتنا بظاہر نظر آتا ہے۔ مگر اس معاملے سے بھی زیادہ مشکل چیز یہ ہے کہ آپ یہ سب ایسے لوگوں کو کیسے سمجھا سکتے ہیں جو ہر چیز کو تعصب کی عینک سے دیکھنے کے عادی ہوں ؟ اور یہ تعصب میں اس احمقانہ حد تک چلے جاتے ہوں کہ یہ دعوی تو رکھتے ہوں کہ “دیکھ لینا ایران کچھ نہیں کرے گا، یہ اسرائیل سے ملا ہوا ہے” مگر اتنا غور فرمانے کی زحمت گوارا نہ کرتے ہوں کہ آخر اس ملاپ میں ایران نے کس لاجک تے تحت یہ رول قبول کر رکھا ہے کہ اسرائیل جب چاہے اس کے اہم لوگوں کو مار لیا کرے ؟ وہ چپ چاپ مار کھا لیا کرے گا۔

تعصب اور تنگ نظری کا یہ لیول ہم نے ان لوگوں میں دیکھ رکھا ہے جن کا ظاہری بھرم غیرمتعصب ہونے کا ہے۔ ایسے ماحول میں پہلا خیال یہی آتا ہے کہ ان موضوعات پر نہ ہی لکھا جائے۔ مگر پھر اس خیال سے لکھنا پڑجاتا ہے کہ ضروری تو نہیں کہ ہر تحریر لمحہ موجود کے انسان کے لئے لکھی جائے۔ کچھ چیزیں تاریخ کے لئے بھی لکھ چھوڑنی چاہئیں۔ سو چلئے بات کرتے ہیں۔

ہم زیر نظر کالم میں کچھ نام لکھنے س گریز کریں گے تاکہ سوشل میڈیا سنسر شپ کی چھری سے بچ سکیں۔ لیکن بات ہم اس صراحت سے کریں گے کہ نام لئے بغیر بھی آپ سمجھ جائیں گے کہ کس کا ذکر ہو رہا ہے۔

امسال جولائی کے آخری روز تہران میں ایک بڑا قتل ہوا۔ یہ قتل اس لحاظ سے ایران کے لئے ایک بڑا جھٹکا تھا کہ مقتول رہنماء ایرانی حکومت کے مہمان تھے جو نو منتخب ایرانی صدر مسعود پزشکیان کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لئے آئے تھے۔ قتل بہرصورت ایک سنگین معاملہ ہوتا ہے۔ مگر اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ آپ کسی اپنے کا قتل تو معاف کرسکتے ہیں مگر باہر سے آئے مہمان کا قتل معاف کرنے کا آپشن نہیں رکھتے۔

اپنے مغربی آقاؤں کی مدد سے ایران سے جنگ کی آرزو رکھنے والے اسرائیل نے یہ واردات کی ہی اس غرض سے تھی کہ ایران چاہ کر بھی اس کے انتقام سے گریز کی راہ اختیار نہ کرسکے اور اس کا انتقامی وار اس جنگ کا الاؤ دہکا دے جو اسرائیل کی اشد ضرورت ہے۔

یہی وہ نکتہ ہے جس کے سبب ایران کی جانب سے اب تک جوابی کار روائی نہیں ہوئی۔ ایرانی اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس بار معاملہ ڈٹرنس قائم کرنے کا نہیں کہ بات اس کے جوابی حملے پر ختم ہوجائے گی۔ بلکہ نتیجہ باقاعدہ جنگ کی صورت نکلے گا۔ سو جب جنگ ہی لڑنی ہے تو پھر اس کے لئے درکار ہنگامی نوعیت کی تیاریاں ضروری ہیں۔جن میں کچھ مقامات کو محفوظ کرنا اور کچھ چیزیں کچھ مقامات تک پہنچانا شامل ہے۔

چنانچہ اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ پچھلے تین ہفتوں سے روسی ٹرانسپورٹ طیارے روس اور ایران کے بیچ سپلائی لائن کا ایک برج قائم کرچکے ہیں۔ اس معاملے میں روسیوں نے ایران کو وہ چیزیں بھی فراہم کی ہیں جو ابھی خود انہوں نے بھی استعمال نہیں کیں۔ مثلاً مرمنسک بی این الیکٹرانک وارفیئر سسٹمز کی ایران کو فراہمی کی خبر ہی دیکھ لیجئے۔

یہ سسٹم پانچ ہزار کلومیٹر کی رینج رکھتا ہے۔ یہ اس رینج میں طیاروں اور میزائیلوں کے مواصلاتی نظام کو جام کرسکتا ہے۔ اگرچہ ایران یا روس کی طرف سے اس کی آفیشلی کوئی خبر نہیں دی گئی۔ مگر تین باتیں اہم ہیں۔ پہلی یہ کہ اس کی تصدیق ایسے معتبر مغربی ذرائع کر رہے ہیں جو مغرب کے جنگی جنون کے شدید مخالف ہیں۔

دوسری یہ کہ ان خبروں کی روس یا ایران نے تردید نہیں کی۔ تیسری یہ کہ جن دنوں اس سسٹم کی تنصیب کی خبر چل رہی تھی انہی ایام میں بعض ایئرلائن نے ایرانی حدود میں پرواز کے دوران جی پی ایس سسٹم میں جزوی خلل کی شکایات کیں۔ اور مذکورہ سسٹم کے نظام کار میں جی پی ایس کو ہی بطور خاص ہدف رکھا گیا ہے۔

یہاں ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سسٹم اگر واقعی اتنی لمبی رینج رکھتا ہے۔ اور ہے بھی مؤثر تو یوکرین میں جاری ملٹری آپریشن میں روس اسے کیوں استعمال نہیں کر رہا ؟ اس کے دو جواب تو بالکل سامنے ہی ہیں۔ پہلا یہ کہ یوکرینی ایئرفورس کو تو روس پہلے ہی فارغ کرچکا ہے۔ جبکہ امریکہ کے فراہم کردہ ہائی مارس اور برطانوی سٹروم شیڈو میزائلوں کا وہ چھوٹے لیول پر ہی توڑ کرچکا۔ دوسرا، اور سب سے اہم جواب یہ ہے کہ اس نئی اور اہم ترین ٹیکنالوجی کو روس یوکرین جیسے پراکسی کے خلاف کیوں استعمال کرے گا ؟ اسے تو وہ نیٹو یا اس کے رکن ممالک کے خلاف ہی حرکت میں لانا چاہے گا۔

اب اگر اس تناظر میں ہم دیکھیں تو ایران روسی دفاع کے نقطہ نظر سے اہم لوکیشن پر واقع ہے۔ اسے کچھ ہونا روس کے لئے نئے خطرات کو جنم دے گا۔ اور اسرائیل جو جنگ برپا کرنا چاہتا ہے اس میں اسے کم از کم امریکہ، برطانیہ اور فرانس سے بڑی امیدیں ہیں۔ ان ممالک کے بغیر یہ ممکنہ جنگ جیتنا تو دور اسرائیل اسے لڑ بھی نہیں سکتا۔

اگرچہ فی الحال امریکہ ایران سے جنگ لڑنے کے لئے تیار نہیں۔ مگر بینجمن نیتن یاہو کا یہی خیال ہے کہ اگر ایران اسرائیل کی سلامتی کو خطرے میں ڈالدے تو امریکہ ہی نہیں باقی اتحادی ممالک بھی اس جنگ میں کود جائیں گے۔چنانچہ یہی وہ ممکنہ صورتحال ہوگی جب روس کا بڑا سٹیک داؤ پر ہوگا۔ سو اس کے تدارک کے لئے مرمنسک بی این الیکٹرانک وارفیئر سسٹمز کی فراہمی بالکل قابل فہم ہوجاتی ہے۔

اب یہاں خود جنگ کے حوالے سے ہی کئی اہم سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ مثلا یہ کہ امریکہ اور اس کے بعض اتحادی اگر اس جنگ میں کود بھی جائیں تو کیا یہ سرخرو ہوسکتے ہیں ؟ کیا ایران کی حالت بھی وہی ہوگی جو عراق کی تھی ؟ کیا امریکہ اور اس کے بعض اتحادی ایران پر حملے میں بھی حصہ لیں گے یا بس اسرائیل پر ہونے والے حملوں کے تدارک تک رہیں گے ؟ اور سب سے اہم یہ کہ کیا دنیا اس جنگ کو افورڈ بھی کرسکتی ہے ؟ مگر سب سے پہلے اس سوال کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ اسرائیل یہ جنگ اس شدت سے چاہ کیوں رہا ہے ؟ کیا معاملہ بس اتنا ہی ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو جانتا ہے کہ موجودہ جنگی ماحول ختم ہوتے ہی اس کا پرانا معاملہ کھل جائے گا اور اسے جیل جانا پڑے گا ؟ سو گرفتاری سے بچنے کی واحد صورت یہی ہے کہ یہ ماحول برقرار، رہے ۔ یا اس کے پیچھے کوئی بڑی سکیم کھڑی ہے ؟ (جاری ہے)