ملکی سیاست میں آرمی چیف کی تقرری کو جس طرح متنازعہ بنایا جارہا ہے، قوم کی 75سالہ تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی اور افسوسناک بات یہ ہے کہ اس انتہائی حساس معاملے پر بے جا بیان بازی میں حکومت کی اتحادی اور مخالف جماعتیں برابر کی شریک ہیں۔
گزشتہ روز بھی پی ڈی ایم اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ عمران خان فوج سمیت تمام اداروں پر حملہ آور ہیں۔ان کی سیاست ختم ہوچکی، وہ ہوتے کون ہیں کہ حکومت کو کہیں آرمی چیف کی تقرری کون کرے گا۔
قبل ازیں وفاقی وزیر خرم دستگیر کا لندن گئے ہوئے وزیر اعظم کے متعلق کہنا تھا کہ شہباز شریف نواز شریف سے آرمی چیف کی تعیناتی پر مشاورت کریں گے جس پر پی ٹی آئی کی جانب سے سخت ردِ عمل سامنے آیا۔ کہا گیا کہ نواز شریف جیسا سزا یافتہ مجرم آرمی چیف کی تقرری کا فیصلہ نہیں کرسکتا۔
اگر ہم موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی بات کریں تو ان کے دور میں ملک پر بڑی بڑی آفتیں آئیں اور پاک فوج نے ہر مسئلے میں عوام کی مدد کیلئے بڑھ چڑھ کر اپنا کردا ادا کیا۔ موجودہ سیلاب اس کی بڑی مثال ہے جس کے دوران بری، بحری اور فضائی افواج عوام کی مدد کیلئے پیش پیش ہیں۔
نومبر 2016 میں جنرل قمر جاوید باجوہ کو ملک کا آرمی چیف مقرر کیا گیا۔ ان سے پہلے جنرل راحیل شریف نے 29 نومبر 2013 کو آرمی چیف کا چارج سنبھالا اور پھر 29 نومبر 2016 کو عہدہ چھوڑ دیا۔ آج کل اسلامی عسکری اتحاد کی سربراہی کررہے ہیں۔
قبل ازیں جنرل اشفاق پرویز کیانی کی بھی مثال ہمارے سامنے ہے جو 29 نومبر 2007 کے روز آرمی چیف بنے اور 2013 کو اسی روز عہدہ چھوڑا۔ عموماً ایک آرمی چیف کی مدت 3 سال ہوتی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ جنرل کیانی نے 1 بار ایکسٹینشن حاصل کی۔
موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ موجودہ عہدے پر 5 سال 294 روز تک فائز رہے ہیں اور ان کا مزید توسیع لینے کا بظاہر کوئی ارادہ نہیں لگتا تو نیا آرمی چیف تعینات کرنے پر سیاستدانوں کے مابین گفتگو کو حیرانی کی بات ضرور سمجھا جانا چاہئے۔
پاک فوج نے 9 سال 53 روز تک آرمی چیف رہنے والے جنرل پرویز مشرف کے بعد سے پاکستان کی سیاست میں بظاہر کوئی مداخلت نہیں کی جن کے دور میں نائن الیون جیسا بڑا واقعہ سامنے آیا اور دنیا بھر میں مسلمانوں کو دہشت گرد سمجھا جانے لگا۔
سابق آرمی چیف اور چیف ایگزیکٹو آف پاکستان جنرل مشرف نے جہاد کے تصور سمیت دیگر اہم معاملات پر بیانات جاری کرکے دنیا کو سمجھانے کی کوشش کی کہ مسلمانوں کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں تاہم مغرب کو 21 سال گزر جانے کے باوجود یہ مسئلہ تاحال سمجھ میں نہیں آیا۔
بالکل اسی طرح جیسے سیاستدانوں کو یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ آرمی چیف ایک حساس عہدہ ہے۔ بہتر ہے کہ اسے سیاسی گفتگو، آپس کی نوک جھونک اور بیان بازی سے دور ہی رکھا جائے۔