وزیراعظم شہباز شریف نے عمران خان سے سوال کیا کہ واقعے کے فوری بعد عمران خان بغیر کسی سرکاری اسپتال میں روکے تین گھنٹے کے فاصلے پر شوکت خانم اسپتال کیوں گئے۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر اعذظم نے کہا کہ پی ٹی آئی کے جلوس میں فائرنگ کی بھرپور مذمت کی، سیاست میں تشدد کی کوئی جگہ نہیں، زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے نے مذمت کی، پنجاب حکومت سے واقعہ کی تحقیقات کا کہا ہے، ان کی معاونت کے لئے تیار ہے۔
انہوں نے کہا کہ فائرنگ واقعہ کے بعد میں نے اپنی پریس کانفرنس ملتوی کردی، اللہ تعالیٰ جاں بحق شخص کے درجات بلند اور زخمیوں کو جلد صحت عطا فرمائے۔
یہ بھی پڑھیں:
اعظم سواتی کی ویڈیو وائرل ہونے کا معاملہ،ایف آئی اے فرانزک رپورٹ آگئی
شہباز شریف نے کہا کہ میرے، راناثنا اور ایک اعلیٰ فوجی افسر پر الزامات لگائے گئے، اس موقع پر سخت الفاظ سے گریز کرنا چاہئے، جھوٹ بدنیتی سےآپ قوم کوتباہی کے دہانے پر لے جا رہے ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کو بچانے کے لئے ہمیں اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہوگا، سازشوں کے ذریعے قوم کو گمراہ کیا جا رہا ہے، عمران خان جنرل باجوہ کی تعریفیں کیا کرتے تھے، جس ادارے نے عمران خان پر انتا بڑا احسان کیا، اب عمران افواج پاکستان پر ہی دشمن کی طرح حملہ آور ہیں، بھارت میں ان الزامات پر شادیانے بجائے جا رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان اداروں پر سنگین الزامات لگارہے ہیں، یہ سر سے پاؤں سے جھوٹ کا مجسمہ ہیں، یہ اپنے جھوٹ سے قوم کو پٹری سے ہٹانا چاہتے ہیں۔
شہباز شریف نے کہا کہ پنجاب حکومت کو تھریڈ الرٹ سے پہلے آگاہ کیا تھا، واقعے کا مقدمہ درج کرنا پنجاب حکومت کی ذمہ داری ہے، اب تک پوسٹ مارٹم کیوں نہیں ہوا؟
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ عمران خان نے پہلے چار اور بعد میں 3 لوگوں پر الزام عائد کیا، اگر ان کے پاس ثبوت ہیں تےو سامنے لے آئیں، اگر ہلکا سا سازش کا ثبوت رانا ثناء میرے یا فوجی افسر کے خلاف سامنے آجائے تو میں وزارت عظمیٰ کے ساتھ ساتھ سیاست کو بھی خیر باد کہہ دوں گا۔
شہباز شریف نے چیف جسٹس عمر عطاء بندیال سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اس قسم کا فساد و فتنہ ختم کرنے کے لئے اس معاملے کا فُل کورٹ پر مبنی کمیشن تشکیل دیا جائے جس میں جونیئر، سینئر ججز بھی شامل ہوں، میں آپ سے خط کے ذریعے درخواست بھی کروں گا اور مجھے امید ہے کہ میری اس درخواست کی پزیرائی ہوگی۔
وزیراعظم نے کہا کہ اگر آج آپ نے میری اس درخواست کو قبول نہی فرمایا تو پھر آںے والے وقتوں میں ہمیشہ سوال اُتھتے رہیں گے، یہ فتنہ اور سازش عدالت کی فُل کورٹ کی کمیشن کے ذریعے ہی سامنے آئیں گے، معاملے پر کمیشن کا جو فیصلہ ہوگا میں اسے من و عن قبول کروں گا۔