صدر نے سپریم کورٹ بل 2023 آرٹیکل 75 کے تحت پارلیمنٹ کو واپس بھجوا دیا

مقبول خبریں

کالمز

zia-2
آٹا 5560 روپے کا ایک کلو!
zia
برسوں ایران میں رہنے والی اسرائیلی جاسوس خاتون کی کہانی
Philippines, Pakistan, National Day, Dr. Emmanuel Fernandez, bilateral ties, diplomacy, climate change, development, peace, trade, education, cultural exchange, sustainable future, regional cooperation, Mabuhay, Filipino community, Islamabad celebration, soft power, South-South partnerships, innovation, resilience, post-colonial nations, mutual respect, global south
مشترکہ جدوجہد اور روشن مستقبل کی ایک خوبصورت تقریب

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

اسلام آباد: صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے سپریم کورٹ بل 2023 کو آئین کی دفعہ 75 کے تحت پارلیمنٹ کو واپس بھجوا دیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق صدرِ پاکستان نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پراسیجر بل 2023 کو واپس بھجوا دیا۔ صدرِ مملکت کا کہنا ہے کہ بادی النطر میں یہ بل پارلیمنٹ کے دائرۂ اختیار سے باہر ہے۔ بل قانونی طور پر مصنوعی اور ناکافی ہے۔ عدالت میں چیلنج کیا جاسکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

آرمی چیف دورے سے کشمیریوں میں امید کی لہر دوڑگئی۔صدر آزاد کشمیر

صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی کا کہنا ہے کہ میرے خیال میں اس بل کی درستگی کے بارے میں جانچ پڑتال پوری کرنے اور دوبارہ غور کرنے کیلئے واپس کرنا مناسب اقدام ہے۔ آئین سپریم کورٹ کو  مشاورت، نظرِ ثانی اور ابتدائی اختیارِ سماعت سے نوازتا ہے۔

بل کے متعلق صدرِ مملکت نے مزید کہا کہ مجوّزہ بل آرٹیکل 184 تین عدالت کے ابتدائی اختیارِ سماعت کے متعلق ہے۔ بل کا مقسد ابتدائی اختیارِ سماعت استعمال اور اپیل کرنے کا طریقہ فراہم کرتا ہے۔ یہ خیال قابلِ تعریف ہوسکتا ہے مگر کیا یہ مقصد آئین میں ترمیم کے بغیر حاصل ہوسکتا ہے؟

آرٹیکل 191 سپریم کورٹ کو عدالتی کارروائی اور طریقہ کار ریگولیٹ کرنے کیلئے قوانین بنانے کا اختیار دیتا ہے۔ صدرِ مملکت نے کہا کہ آئین کی ان دفعات کے تحت سپریم کورٹ رولز 1980ء بنائے گئے جن کی توثیق خود آئین نے کی۔ سپریم کورٹ رولز پر عملدرآمد 1980 سے جاری ہے۔

جانچ شدہ قواعد میں چھیڑ چھاڑ عدالت کی اندرونی کاروائی ، خود مختاری اور آزادی میں مداخلت کے مترادف ہو سکتی ہے۔  صدر عارف علوی نے کہا کہ ریاست کے تین ستونوں کے دائرہ اختیار، طاقت اور کردار کی وضاحت آئین نے ہی کی ہے۔

آرٹیکل 67 کے تحت پارلیمان کو آئین کے تابع رہتے ہوئے اپنے طریقہ کار اور کاروبار کو منظم کرنے کیلئے قواعد بنانے کا اختیار حاصل ہے۔ صدر نے کہا کہ آرٹیکل 191 کے تحت سپریم کورٹ اپنی کاروائی اور طریقہ کار کو ریگولیٹ کرنے کے قواعد بنا سکتی ہے۔

دفعات 67 اور 191 ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہیں۔ صدر نے کہا کہ آرٹیکل 67 اور 191 قواعد بنانے میں دونوں کی خودمختاری کو تسلیم کرتے ہیں۔ دونوں آرٹیکل اداروں کو اختیارمیں مداخلت سے منع کرتے ہیں۔آرٹیکل 191 عدلیہ کی آزادی کو تحفظ دینے کیلئے آئین کا حصہ بنا۔

پارلیمنٹ کا قانون سازی کا اختیار بھی آئین سے ہی اخذ شدہ ہے۔ صدرِ مملکت نے کہا کہ آرٹیکل 70 وفاقی قانون سازی کی فہرست میں شامل کسی بھی معاملے پر بل پیش کرنے اور منظوری سے متعلق ہے۔ پارلیمنٹ وفاقی قانون سازی کی فہرست میں کسی بھی معاملے پر قانون بنا سکتی ہے۔

فورتھ شیڈول کے تحت پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ کے علاوہ تمام عدالتوں کے دائرہ اختیار اور اختیارات کے حوالے سے قانون سازی کا اختیار ہے۔ صدرِ مملکت نے کہا کہ سپریم کورٹ کو خاص طور پر پارلیمان کے قانون سازی کے اختیار سے خارج کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بل بنیادی طور پر پارلیمنٹ کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔ پارلیمنٹ کو بل کے ان پہلوؤں پر مناسب غور کرنے کی ضرورت ہے۔

Related Posts