ایران کے فردو ایٹمی مرکز پر اسرائیلی حملے کی تیاری؟ ممکنہ کمانڈوز آپریشن کی حکمتِ عملی

مقبول خبریں

کالمز

zia
امریکا کا یومِ قیامت طیارہ حرکت میں آگیا۔ دنیا پر خوف طاری
Firestorm in the Middle East: Global Stakes on Exploding Frontlines
مشرق وسطیٰ میں آگ و خون کا کھیل: عالمی امن کیلئے خطرہ
zia-2
آٹا 5560 روپے کا ایک کلو!

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

(فوٹو؛ عرب میڈیا)

ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی ایک نئے سنگ میل پر پہنچ چکی ہے جبکہ عالمی برادری کی نظریں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ممکنہ فیصلے پر جمی ہوئی ہیں کہ آیا وہ اس تنازع میں براہ راست شریک ہوں گے یا نہیں۔

اس غیر یقینی صورتحال کے دوران، اسرائیل نے بظاہر ایک متبادل حکمتِ عملی تیار کر لی ہے جس کا ہدف ایران کی حساس اور قلعہ بند جوہری تنصیب فردو ہے، جو تہران سے تقریباً 95 کلومیٹر جنوب مغرب میں واقع ہے۔

قلعہ بند فردو، ایک مشکل ہدف

فردو نیوکلیئر پلانٹ ایران کی اُن تنصیبات میں شامل ہے جو زیرِ زمین ہونے کے باعث دشمن کے حملوں سے محفوظ سمجھی جاتی ہیں۔ یہ تنصیب پہاڑیوں کے اندر گہرائی میں قائم کی گئی ہے، جو اسے فضائی حملوں سے تباہ کرنے کے امکانات کو کم کر دیتی ہے۔

اسرائیلی حکام نے تسلیم کیا ہے کہ وہ امریکی ساختہ “بمب شیلٹر بسٹرز” (جیسا کہ GBU-57) یا B-2 اسٹیلتھ بمبار طیاروں کے بغیر فردو کو فضائی حملے میں مکمل طور پر تباہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے، یہ دونوں اثاثے صرف امریکہ کے پاس ہیں۔

اسرائیل اب ایک مختلف حکمتِ عملی پر غور کر رہا ہے کہ انسانی ذرائع کے ذریعے کارروائی، امریکی نیوز ویب سائٹ Axios کے مطابق، اسرائیل نے امریکی حکام کو آگاہ کیا ہے کہ وہ فردو جیسے قلعہ بند مرکز کو کمانڈوز آپریشن کے ذریعے نشانہ بنا سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسرائیلی اسپیشل فورسز، ممکنہ طور پر موساد کی مدد سے، ایران کے اندر دراندازی کر کے تنصیب کے اندر دھماکا خیز مواد نصب کر سکتی ہیں۔

یہ کوئی خیالی امکان نہیں، اس کی عملی مثال ہمیں گزشتہ سال ستمبر میں شام میں نظر آئی، جب اسرائیلی اسپیشل فورسز نے زیر زمین میزائل فیکٹری پر کامیاب کارروائی کی تھی۔

امریکی ویب سائٹ Axios کے مطابق، موجودہ صورت حال میں اسرائیل کو ایرانی فضائی حدود میں کافی حد تک سبقت حاصل ہو چکی ہے۔ ایران کی فضائی اور دفاعی تنصیبات کو حالیہ حملوں میں خاصا نقصان پہنچایا گیا ہے، جس کی وجہ سے اسرائیلی کمانڈوز آپریشن کی راہ نسبتاً ہموار ہو گئی ہے۔

دوسری جانب امریکی صدر ٹرمپ کو ان کے مشیروں نے یہ بریفنگ دی ہے کہ امریکہ کے پاس فردو کو مکمل طور پر تباہ کرنے کی صلاحیت موجود ہے، بشرطیکہ GBU-57 بم استعمال کیے جائیں۔ تاہم، صدر ٹرمپ اس حوالے سے تذبذب کا شکار نظر آ رہے ہیں اور فی الحال حتمی فیصلے سے گریزاں ہیں۔ اطلاعات کے مطابق، وہ آئندہ ہفتے فردو پر حملے کے آپشن پر کوئی فیصلہ کر سکتے ہیں۔

اسرائیل کی جانب سے کمانڈوز آپریشن پر غور اس بات کا اشارہ ہے کہ تل ابیب کسی صورت ایران کے جوہری پروگرام کو برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ اگر امریکہ تعاون نہیں کرتا، تو اسرائیل متبادل ذرائع سے اپنا ہدف حاصل کرنے کی کوشش کرے گا، خواہ وہ خفیہ کارروائی ہو یا محدود فوجی دراندازی۔

اس منظرنامے میں سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ اگر فردو پر واقعی حملہ ہوتا ہے، تو ایران کی جوابی کارروائی پورے خطے کو جنگ کی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ ایسے میں مشرق وسطیٰ کی سیاسی اور سیکیورٹی صورتحال مزید غیر مستحکم ہو سکتی ہے، اور عالمی طاقتوں کو ایک نئی سرد جنگ یا حتیٰ کہ براہِ راست تصادم کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

Related Posts