بھارت میں مسلمانوں کے ایک اور اہم مذہبی مقام پر قبضے کی تیاریاں

مقبول خبریں

کالمز

zia
برسوں ایران میں رہنے والی اسرائیلی جاسوس خاتون کی کہانی
Philippines, Pakistan, National Day, Dr. Emmanuel Fernandez, bilateral ties, diplomacy, climate change, development, peace, trade, education, cultural exchange, sustainable future, regional cooperation, Mabuhay, Filipino community, Islamabad celebration, soft power, South-South partnerships, innovation, resilience, post-colonial nations, mutual respect, global south
مشترکہ جدوجہد اور روشن مستقبل کی ایک خوبصورت تقریب
Munir-Ahmed-OPED-768x768-1-750x750
روسی کے قومی دن کی خوبصورت تقریب

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

بھارت میں مسلمانوں کے ایک اور اہم مذہبی مقام پر قبضے کیلئے زمین سازگار بنائی جانے لگی، کرشن جنم بھومی اور شاہی عیدگاہ تنازع پر متھرا کورٹ نے اہم فیصلہ صادر کیا ہے۔

 مبینہ کرشن جنم بھومی تنازع سے متعلق عرضی پر سماعت کرتے ہوئے متھرا سول جج سینئر ڈویژن کی عدالت نے شاہی عیدگاہ کے سروے کا حکم دیا ہے جو ہندو فریق کے لیے ایک بڑی کامیابی تصور کیا جا رہا ہے۔ ہندو فریق کی اپیل پر سول جج سینئر ڈویژن کی عدالت نے یہ فیصلہ سنایا۔

موصولہ اطلاعات کے مطابق مبینہ کرشن جنم بھومی شاہی عیدگاہ تنازع کو لے کر ہندو فریق کی طرف سے داخل عرضی پر سماعت کے بعد اپنے فیصلے میں متھرا کورٹ نے سروے کے لیے ایک خاص مدت کا تعین کیا ہے۔

سول جج سینئر ڈویژن نے اپنے حکم میں کہا ہے کہ سروے کی رپورٹ 20 جنوری تک عدالت کے حوالے کرنی ہوگی۔ سول کورٹ نے ساتھ ہی اس معاملے سے جڑے سبھی فریق کو نوٹس بھی جاری کیا ہے۔ عدالت نے عرضی دہندہ وشنو گپتا کی اپیل پر امین سے بھی رپورٹ طلب کی ہے۔

مبینہ کرشن جنم بھومی سے متعلق ایک دیگر معاملے میں عرضی دہندہ ایڈووکیٹ مہندر سنگھ نے جانکاری دی کہ عدالت نے امین سے تین دن میں اپنی رپورٹ داخل کرنے کے لیے کہا ہے۔ عرضی دہندہ وشنو گپتا نے 13.37 ایکڑ زمین کو آزاد کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔

واضح رہے کہ ہندو انتہا پسندوں نے جس طرح بابری مسجد کو رام کی جھوٹی جنم بھومی پر بنائی گئی مسجد قرار دے کر شہید کرکے اب وہاں رام مندر بنا رہے ہیں، اسی طرح اب متھرا کی عظیم شاہی عید گاہ کو کرشن جی کی جنم بھومی کے دعوے میں لپیٹنے کا آغاز کر دیا گیا ہے۔

عرضی میں دعوی کیا گیا ہے کہ مسجد میں جہاں نماز پڑھی جاتی ہے وہ حقیقتا مندر کا حصہ ہے۔ اے ایس آئی کے افسران کو عیدگاہ بھیج کر ہندو مندر کے شواہد کی موجودگی کے بارے میں رپوٹ لینے کی اپیل کی گئی ہے۔
مدعی منیش شرما کے وکیل کی جانب سے اسی عدالت میں آج دی گئی دوسری عرضی میں بھی مسجد میں موجود ہندو مندر کے نشانات وغیرہ کے مسخ کئے جانے کے اندیشے کا اظہار کرتے ہوئے عیدگاہ میں سی سی ٹی وی لگانے اور عید گاہ کی سخت سیکورٹی و نگرانی ضلع انتظامیہ کے ذریعہ یقینی بنانے اور کسی ناشناشا شخص کی عیدگاہ میں داخلے پر پوری طرح سے پابندی لگانے کی درخواست کے ساتھ عدالت سے اپیل کی گئی ہے کہ پرنسپل سکریٹری(داخلہ) کو یہ ہدایت دیں کہ وہ مکمل کاروائی کی خود مانیٹرنگ کریں۔

Related Posts