حکومت نے بجلی چوری اور بل ادا نہ کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کرنے اور سخت کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
عبوری حکومت پر بجلی کے مہنگے بلوں میں ریلیف فراہم کرنے کے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے، بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے خلاف ملک بھر میں بڑے پیمانے پر احتجاج کیا جا رہا ہے۔
جولائی میں موصول ہونے والے بجلی کے زیادہ بلوں پر عوام سراپا احتجاج ہیں۔ عوام کی طرف سے شروع کیے گئے مظاہروں میں جلد ہی سیاسی جماعتوں اور تاجر برادری بھی شامل ہو گئی، جس نے حکومت کو اس معاملے پر غور کرنے پر مجبور کر دیا۔
نگران حکومت آئی ایم ایف سے معاہدے کے باعث عوام کو ریلیف فراہم کرنے میں ناکام ہے اور سڑکوں پر آنے والے اور اپنی مایوسی کا اظہار کرنے والے لوگوں کو راضی کرنے کیلئے دیگر محدود آپشنز پر غور و خوض جاری ہے۔
دریں اثناء حکومت نے بجلی چوری کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کرنے کا اعلان کیا۔ نگراں وزیر توانائی نے کہا کہ بجلی چوری کے نقصانات کا تخمینہ 589 ارب روپے ہے۔ بجلی کی تقسیم کار کئی کمپنیوں کے لائن لاسز 60 فیصد تک زیادہ ہوتے ہیں جس سے اربوں کا نقصان ہوتا ہے۔
عوام کو ریلیف دینے کی غرض سے اٹھائے جانے والے اقدامات میں تکنیکی مداخلت، نجی شعبے کی شمولیت اور زیادہ لائن لاسز والے علاقوں میں متعلقہ قوانین کا سختی سے نفاذ شامل ہے۔
موجودہ نگران حکومت سے یہ بھی توقع ہے کہ وہ بجلی چوری پر قابو پانے کیلئے ایک نیا قانون لائے گی اور شکایات سننے اور سزائیں دینے کیلئے خصوصی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ حکومت بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی نجکاری یا انہیں صوبوں کے حوالے کرنے پر بھی غور کر رہی ہے۔
بجلی چوری کا مجرمانہ عمل پاکستان میں بڑے پیمانے پر پایا جاتا ہے ہے۔ بجلی کے غیر قانونی کنکشن یا کنڈے استعمال کرکے بجلی چوری کی جاتی ہے جس سے ملک کو شدید نقصان ہوتا ہے اور بجلی کا بحران مزید بگڑتا ہے۔ درحقیقت کئی شہروں میں بجلی کا متوازی نظام برسوں سے چل رہا ہے۔ یوٹیلیٹی کمپنیوں کے اہلکار اکثر مطمئن نظر آتے ہیں اور کئی بااثر لوگ بھی اس عمل میں ملوث ہیں۔
فی الحقیقت بجلی چوری کے خلاف اٹھائے جانے والے اقدامات خوش آئند ہیں لیکن اس کی تاثیر کو ناپا جانا چاہیے۔ گزشتہ حکومتوں نے بھی محدود کامیابی کے ساتھ ایسے ہی اقدامات کیے ہیں۔ عوامی دباؤ اور سڑکوں پر احتجاج کے باعث حکومت بجلی کے دائمی بحران کو حل کرنے کے لیے کوشاں ہے۔
اس حوالے سے حکومت کا مؤقف ہے کہ جب تک بجلی چوری اور بلوں کی ادائیگی کا مسئلہ حل نہیں ہوتا، بجلی کے بحران سے نجات نہیں ملے گی۔ضروری ہے کہ عوام بجلی چوری کے خلاف سرکاری کارروائیوں کے خلاف نہ ہوں بلکہ اس میں حکومت کی معاونت کریں جس کا حقیقی فائدہ قوم کو ہوگا۔