بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان کو قرض جاری کرنے کی منظوری کیا دی، ملک بھر میں میدانِ سیاست کے بڑے بڑے ناموں نے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنا شروع کردیں۔ عمران خان کو غدار قرار دیا گیا جبکہ پی ٹی آئی کا حکومت کے متعلق کہنا تھا کہ یہ بے شرم لوگ ہیں۔
سابق وفاقی وزیر اسد عمر نے 2 روز قبل اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ ہوگیا اور اب یہ بے شرم لوگ قوم کو مبارکباد دے رہے ہیں تاہم انہوں نے یہ وضاحت نہیں کی کہ ٹوئٹر پیغام میں بے شرم لوگوں سے کون کون مراد ہے۔
اسد عمر کے ٹوئٹر پیغام میں موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف، وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو زرداری، وزیرِ منصوبہ بندی احسن اقبال، ن لیگ کی نائب صدر مریم نواز اور وزیرِ دفاع خواجہ آصف کے ماضی کے بیانات کا حوالہ دیا گیا تھا جس سے بادی النظر میں واضح ہوتا ہے کہ بے شرم لوگ کی اصطلاح کس کیلئے تھی۔
سابق اپوزیشن لیڈر قومی اسمبلی و موجودہ وزیر اعظم کے جس بیان کا حوالہ دیا گیا، اس میں شہباز شریف کا کہنا ہے کہ یہ 1 ارب ڈالر کیلئے آئی ایم ایف کے آگے ڈھیر ہو گئے۔ سکیورٹی رسک بن چکے ہیں۔
چیئرمین پی پی پی کے جس بیان کا حوالہ دیا گیا، اس میں بلاول بھٹو زرداری سابق عمران خان حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ عوام دشمن آئی ایم ایف ڈیل سے نکلو۔ احسن اقبال نے کہا کہ ہمیں آئی ایم ایف کا غلام بنا دیا۔
اسی طرح ن لیگ کی نائب صدر مریم نواز نے کہا کہ آئی ایم ایف ہماری ناک سے لکیریں کھنچوائے گا جبکہ ن لیگی رہنما کے طور پر خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ یہ آئی ایم ایف بل سقوطِ ڈھاکہ سے بڑا سرینڈر ہے۔
تاریخ کے اوراق پلٹیں تو پتہ چلتا ہے کہ 1971 میں مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہو کر بنگلہ دیش بن گیا جسے سقوطِ ڈھاکہ کہاجاتا ہے۔ اس سانحے میں ایک افسوسناک واقعہ یہ ہوا کہ پاک فوج کے جوانوں کو ہتھیار ڈالنے پڑے جسے خواجہ آصف نے سقوطِ ڈھاکہ سرینڈر کا نام دیا۔
غور کیجئے تو مسلم لیگ (ن) نے کوئی نیا کام نہیں کیا بلکہ وہی کیا جو آج تحریکِ انصاف کر رہی ہے۔ جب پی ٹی آئی اقتدار میں تھی تو آئی ایم ایف سے ڈیل عمران خان حکومت کی ترجیحات میں شامل تھی اور جب اقتدار سے محرومی سامنے نظر آنے لگی تو آئی ایم ایف سے معاہدہ ہی توڑ ڈالا۔
ماہرینِ معاشیات کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت نے آئی ایم ایف سے معاہدہ توڑ کر جو اقدام اٹھایا، ملک کی 75سالہ تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاستدان ذاتی مفادات کی جنگ سے باہر نکلیں اور قومی مفادات کے تحفظ کیلئے بھی اقدامات اٹھائیں۔