جیسا کہ توقع کی جا رہی تھی، آئی ایم ایف معاہدے نے معیشت میں کاروباری سرگرمیوں کو فروغ دیا ہے اور سرمایہ کاروں کے اعتماد کو تقویت پہنچائی ہے۔ پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں کاروباری ہفتے کے پہلے دن ایک طویل وقفے کے بعد ریکارڈ تیزی دیکھی گئی، جس سے امید پیدا ہوئی کہ معیشت دوبارہ پٹری پر آ گئی ہے۔
وزیر اعظم نے کاروباری سرگرمیوں کی بحالی اور معاشی بحالی کے آثار پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آئی ایم ایف معاہدے کے بعد کاروباری برادری کا اعتماد بحال ہوا ہے، جس سے اس کی جانب سے ملک میں سرمایہ کاری کو فروغ ملے گا۔ یہ سب اپنی جگہ مگر یہ جوش و خروش قلیل مدتی ہو سکتا ہے کیونکہ فنانس بل نافذ ہو چکا ہے اور بہت سارے نئے ٹیکس لگائے جائیں گے۔
یہ حقیقت ہے کہ آئی ایم ایف ڈیل کے حوالے سے مسلم لیگ ن کے لیے اس سے بہتر وقت نہیں آ سکتا تھا۔ پی ڈی ایم کی مخلوط حکومت کی مدت اگلے ماہ ختم ہو رہی ہے۔ اس کی جگہ آئین کے مطابق ایک نیا عبوری سیٹ اپ اقتدار سنبھالے گا اور حالات سے نمٹے گا، چنانچہ اس صورتحال میں مسلم لیگ ن اپنی ذمہ داری سے بری الذمہ ہو جائے گی اور آئی ایم ایف ڈیل کو بحال کرنے اور قوم کو ڈیفالٹ سے بچانے کا کریڈٹ لے گی۔
انتخابی مہم کے دوران مسلم لیگ (ن) یقینی طور پر پی ٹی آئی پر آئی ایم ایف کے ساتھ تعلقات بگاڑنے اور قوم کو نقصان پہنچانے کا الزام عائد کرے گی۔ اب یہ بھی امکان ہے کہ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میاں نواز شریف کی جلد واپسی کا شیڈول بھی جاری کر دیا جائے، جو اپنی واپسی کیلئے مناسب اور ہموار ماحول کا انتظار کر رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن اس بات کو یقینی بنا رہی ہے کہ ان کی واپسی سے قبل تمام قانونی رکاوٹوں کو بھی دور کیا جائے۔
اگرچہ بظاہر تا حال پی ٹی آئی ہی ن لیگ کے نشانے پر ہے، تاہم الیکشن مہم کے دوران اس امر کا امکان ہے کہ موجودہ حکومتی اتحادی ایک دوسرے کے خلاف میدان میں آئیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا پیپلز پارٹی سیاسی فائدے کے لیے اس صورتحال کا فائدہ اٹھاے گی؟ آخر اس نے بھی پی ٹی آئی کو قابو میں رکھنے اور معاشی بحران کو مینیج کرنے میں مسلم لیگ (ن) کے ساتھ مل کر کام کیا ہے۔
لگتا ہے نواز شریف اور زرداری نے الیکشن سے پہلے ہی اگلے سیٹ اپ کے متعلق ابھی سے ذہن بنا لیا ہے۔ انہوں نے نگران وزیراعظم کے ناموں کا فیصلہ بھی کر لیا ہے، چنانچہ جیسے ہی حکومت اپنی مدت پوری کرے گی، ہم اتحادیوں کو دشمن بنتے ہوئے دیکھیں گے۔
سیاسی جماعتوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ معاشی حالات کا اثر ان کی انتخابی مہم پر لازمی پڑے گا۔ آج آئی ایم ایف ڈیل سے حاصل ہونے والے قلیل مدتی فوائد پر خوش ہونے کے بجائے انہیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ آنے والے دنوں میں اس بات کا امکان ہے کہ معاشی بحران کے سیاسی اثرات مرتب ہوں گے اور وہ انہیں پریشان کرے گا۔