ڈالرائزیشن اور سیاست

مقبول خبریں

کالمز

"Conspiracies of the Elites Exposed!"
سرمایہ داروں کی خوشحالی، عوام کی غربت، پاکستان کی معیشت کا کھلا تضاد
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ڈالرائزیشن کی اصطلاح کو کسی دوسرے ملک کی جانب سے کسی بھی غیر ملکی کرنسی کے استعمال کیلئے شارٹ ہینڈ قرار دیا جاسکتا ہے۔ ڈالرائزیشن اس وقت ہوتی ہے جب کسی ملک کے رہائشی بڑے پیمانے پر ملکی کرنسی کی بجائے غیر ملکی کرنسی کا استعمال شروع کردیتے ہیں۔

یہ ایک ایسی صورتحال کا نام ہے جب مقامی کرنسی انتہائی افراطِ زر یا معاشی عدم استحکام کی وجہ سے زرِ مبادلہ کی بنیاد پر اپنا استحکام کھو بیٹھتی ہے اور پاکستان میں بھی کچھ ایسا ہی ہورہا ہے۔ زیادہ تر ترقی پذیر ممالک کے ساتھ ساتھ عبوری معیشتیں جو صرف مارکیٹ میکانزم کو اپنا رہی ہیں، ان کے پاس پہلے سے ہی ڈالرائزیشن کی ایک محدود اور غیر سرکاری شکل موجود ہے۔ ملکی باشندے پہلے سے ہی ملکی بینکوں میں غیر ملکی کرنسی کے ذخائر کے مالک ہیں۔
زیادہ افراطِ زر والے ممالک میں مقامی کرنسی کے ساتھ ساتھ ڈالر یا کوئی دوسری بارڈر کرنسی لین دین میں بڑے پیمانے پر استعمال کی جاسکتی ہے۔ اس کیلئے مقررہ شرحِ مبادلہ کے نظام کے خاتمے کے بعد قابلِ عمل کرنسی کے تبادلے کے انتظامات کیے جاسکتے ہیں۔ عالمی تجارت اور سرمائے کی منڈیوں کے زیادہ مربوط ہونے کی وجہ سے شرحِ مبادلہ کا کون سا نظام اختیار کرنا ہے، یہ فیصلہ مزید مشکل ہوگیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ نئے مسائل بھی جنم لے رہے ہیں۔
ہر ملک کے ترقیاتی مقاصد کو فروغ دینے کیلئے بہترین تبادلے کے نظام سے سوالات کے نئے جوابات تلاش کیے جاسکتے ہیں جبکہ دنیا بھر میں شرحوں میں اضافے اور پالیسی کو سخت کرنے کا موسم زوروں پر ہے اور پاکستان خطے کا وہ واحد ملک نہیں جو سیاسی بحران کا سامنا کررہا ہو۔ روایتی طور پر ہر آزاد قوم کی خودمختاری کی علامت اس کی اپنی کرنسی ہوتی ہے لیکن عالمگیریت کی دنیا میں قومی کرنسیاں کمزور یا ختم ہوتی جارہی ہیں۔ امریکی ڈالر دنیا کی اکاؤنٹ کرنسی بن چکا ہے۔
کرنسی سے متعلق حالات کی تیزی سے تبدیلی نے 1970 کی دہائی کے وسط سے لے کر اب تک ڈالر کے کردار کو تقویت دی ہے۔ زیادہ تر تجارت کی بنیاد ڈالر پر رکھی جاتی ہے۔ بیشتر ممالک اپنے مرکزی بینک کے ذخائر امریکی ڈالر میں رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں اور نجی کمپنیاں اور دولت مند شہری اکثر ڈالر یا ڈالر سے متعلق اثاثوں کے مالک بن جاتے ہیں۔ امریکا نے ڈالر کی بالادستی سے ہی بڑی معاشی و سیاسی طاقت حاصل کی اور 90ء کی دہائی کے دوران ڈالرائزیشن میں تیزی آئی۔
دراصل پاکستان ڈالرائزڈ معیشت کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اس لیے وفاقی حکومت کو چاہئے کہ وہ بلا تاخیر ڈالر کی پرواز کو لگام دے۔ پی ٹی آئی حکومت کے خلاف مہم چلاتے ہوئے مہنگائی میں کمی اور عوام کو ریلیف دینا ہی پی ڈی ایم کے بڑے وعدوں میں سے ایک رہا۔ ایک بار اقتدار میں آنے کے بعد حکمراں اتحاد پاکستان کے معاشی استحکام کو داؤ پر لگا کر یا تو سری لنکن حکومت کی طرز پر ریلیف فراہم کرنے کی کوشش کرسکتا ہے یا پھر ہوشیار رہ کر اپنے وعدوں سے پیچھے ہٹتے ہوئے کچھ غیر مقبول اقدامات اٹھا سکتا ہے۔
مؤخر الذکر اقدامات سے حکمراں سیاسی جماعتیں پی ٹی آئی کی تنقید کا نشانہ بن سکتی ہیں جو اپوزیشن میں کافی مہلک ثابت ہونے کی پوزیشن میں ہے۔ کئی ممالک میں سرکاری ڈالرائزیشن برسوں سے موجود ہے جس پر ماہرینِ اقتصادیات نے بہت تحقیق کی ہے تاہم سیاسی توجہ بہت کم ہے کیونکہ یہ ایک خاص حد تک حکومتوں کے کنٹرول سے باہر ہے جبکہ آج انٹر بینک مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت 240روپے سے تجاوز کرگئی ہے۔
چونکہ ملکی صنعتیں خام مال، اجزاء اور مشیری کی درآمد پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہیں، روپے کی قدر میں اس قدر کمی سے پیداواری لاگت میں بہت زیادہ اضافہ ہوگیا ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ سیاسی استحکام کا ماحول پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ درآمدات کے متبادل اور برآمدات میں اضافے پر نئے سرے سے توجہ مرکوز رکھتے ہوئے روپے کو استحکام دینے کیلئے تمام تر ممکنہ اقدامات اٹھائے۔ روپے کی گراوٹ معاشی بنیادوں پر ہنیں بلکہ ملک میں جاری سیاسی رسہ کشی اور انتشار کی وجہ سے ہے۔
جب بھی کسی ملک میں سیاسی عدم استحکام پایا جاتا ہے تو سرمایہ کار امریکا کی جانب متوجہ ہوجاتے ہیں اور ڈالر بچانے لگتے ہیں۔ سابق وزیر اعظم عمران خان کی ضمنی انتخابات میں جیت کے بعد آئی ایم ایف کے ساتھ ملک کے بیل آؤٹ پیکیج پر تشویش میں اضافے کے بعد جنوبی ایشیائی مارکیٹ میں خوف و ہراس بڑھ رہا ہے اور ملک کو ڈیفالٹ سے بچنے کی ضرورت ہے۔ روپے کی حالیہ گراوٹ مارکیٹ کے ذریعے طے شدہ شرحِ مبادلہ کے نظام کی ایک خصوصیت ہے۔
پاکستان تیزی سے کم ہوتے ہوئے غیر ملکی کرنسی کے ذخائر، روپے کی گرتی ہوئی قدر اور بڑھتے ہوئے مالیاتی و کرنٹ اکاؤنٹ خسارے سے دوچار ہے اور دسمبر 2021 سے روپے کی قدر میں 20 فیصد کمی ہوئی ہے۔ سیاسی عدم استحکام کے جاری دور میں وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت نے اقتدار سنبھالا جن کو اپریل میں ہٹا دیا گیا تھا جبکہ عمران خان حکومت پر قبل از وقت انتخابات منعقد کرنے کیلئے دباؤ ڈال رہے ہیں۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے بینچ مارک سود کی شرح میں 150 بیس پوائنٹس کا اضافہ کرکے 11 سال کی بلند ترین شرح 13.75 فیصد تک لے جانے کے حالیہ فیصلے پر ملے جلے اثرات مرتب ہورہے ہیں جبکہ یہ فیصلہ مارکیٹ کی توقعات کے عین مطابق ہے جس کی ماہرینِ اقتصادیات نے پیشگوئی کی تھی۔ اسی طرح مارکیٹس پہلے ہی اعلان کے مطابق ڈھل چکی ہیں۔ نتیجتاً اتار چڑھاؤ سے گریز جاری ہے۔ مزید برآں شرحِ سود میں اضافہ مہنگائی کو کم کرنے کیلئے مرکزی اقدام قرار دیا جاسکتا ہے۔
نومبر میں شرحِ سود 11.5 تھی جو اپریل میں 13.4 فیصد ہوگئی۔ اگرچہ یہ دعویٰ قبل از وقت ہے کہ پاکستان میں مہنگائی کا شدید دباؤ بنیادی طور پر یورپ میں جغرافیائی و سیاسی تناؤ کی وجہ سے ہے۔ روس کے حملے اور مغرب کی جانب سے جوابی پابندیوں نے عالمی اجناس کی منڈیاں ہلا کر رکھ دیں۔ روس اور یوکرین (مشترکہ) گندم کی عالمی سپلائی کا کم و بیش 30 فیصد حصہ رکھتے ہیں۔ بحیرۂ اسود میں یوکرین کی بندرگاہیں جو اس وقت روسی افواج کی طرف سے مسدود ہیں، دنیا بھر کی برآمدات کیلئے انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔
شرحِ سود میں اضافہ موجودہ معاشی پریشانیوں سے نمٹنے کیلئے کافی نہیں جبکہ مطالبات پر مبنی پالیسیاں پاکستان کے معاشی استحکام پر متضاد اثر مرتب کر رہی ہیں۔ امریکا کے برعکس پاکستان ایک ترقی پذیر معیشت ہے جو بڑھتی ہوئی کھپت، سرمایہ کاری اور صنعت کاری کے ذریعے ہی پروان چڑھتی ہے۔ اعلیٰ پالیسی کی شرح بھاری ملکی قرض کی وجہ سے حکومتی بجٹ کو نقصان پہنچاتی ہے۔ ک مو بیش 75 فیصد تجارتی ڈپازٹس حکومت کو چائے کے بل اور پاکستان انویسٹمنٹ بانڈز کی بار بار کی جانے والی نیلامیوں کے ذریعے دئیے گئے ہیں۔
طویل مدت میں سپلائی سائیڈ اصلاحات وقت کی ضرورت بن چکی ہیں۔ چین کے ساتھ کرنسی کے تبادلے سے امریکی ڈالر کی قیمت میں تیز رفتار اضافہ روکا جاسکتا ہے۔ قومی آئل ریفائنریز کو اپ گریڈ کیا جائے تاکہ درآمدی بل پر بوجھ کم کیا جاسکے۔ اسی دوران برآمدات پر مبنی صنعتوں کو ترقی دینے اور تجارتی توازن برقرار رکھنے کیلئے پالیسی ریٹ کم کیا جانا چاہئے۔ آزاد اور سمجھدارانہ مالیاتی پالیسیاں پاکستان کی ہچکولے کھاتی معیشت کو سہارا دینے کیلئے اہمیت کی حامل ہیں۔ 
بشکریہ :
رضوان اللہ 
اسکول آف مینجمنٹ اینڈ اکنامکس
بیجنگ انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، چین۔
ای میل: rezwanullah1990@yahoo.com
 

Related Posts