سیاسی جماعتیں مسائل کا ملبہ ایک دوسرے پر ڈالنے میں مصروف، عوام کہاں جائیں؟

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

سیاسی جماعتیں مسائل کا ملبہ ایک دوسرے پر ڈالنے میں مصروف، عوام کہاں جائیں؟
سیاسی جماعتیں مسائل کا ملبہ ایک دوسرے پر ڈالنے میں مصروف، عوام کہاں جائیں؟

ملک بھر میں مہنگائی، لوڈ شیڈنگ اور دیگر مسائل حل ہونے کا نام نہیں لے رہے جبکہ پاکستان تحریکِ انصاف، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی تمام تر مسائل کا ذمہ دار ایک دوسرے کو قرار دینے میں مصروف ہیں۔

کراچی سمیت ملک بھر میں آٹا، چینی، ضروریاتِ زندگی کی اشیاء عوام کی دسترس سے آہستہ آہستہ دور ہوتی جارہی ہیں جبکہ شہرِ قائد میں وفاقی حکومت کی یقین دہانی کے باوجود لوڈ شیڈنگ بھی دھڑلے سے جاری ہے۔

سوال یہ ہے کہ اِن تمام تر مسائل کے حل کیلئے عوام کو کیا کرنا چاہئے؟ کیا سیاسی جماعتوں کے پاس واقعی عوام کے مسائل کا کوئی حل ہے یا ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی سے داد کا حصول ہی سیاست کا اصل مقصد رہ گیا ہے۔

آئیے گزشتہ روز کے پیپلز پارٹی کے احتجاج کے اعلان سے شروع کرتے ہیں اور تحریکِ انصاف کے عائد کردہ الزامات کا بھی جائزہ لیتے ہیں کہ سچ کیا ہے اور اگر واقعی عوام کے مسائل کا کوئی حل ہے تو وہ کہاں ہے؟

سندھ حکومت کا وفاق کے خلاف احتجاج 

پاکستان پیپلز پارٹی نے گزشتہ روز کراچی پریس کلب میں 4 بج کر 30 منٹ پر وفاقی حکومت کے خلاف احتجاج کیا جس کی قیادت وزیرِ تعلیم سندھ سعید غنی نے کی لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ درست ہے؟

عوام کو جب بھی کوئی مسئلہ درپیش ہو وہ اپنے مسائل کے حل کیلئے حکومت کی طرف دیکھتے ہیں جس میں صوبائی یا وفاقی حکومت کی کوئی تخصیص نہیں ہوتی لیکن یہاں تو صوبائی اور وفاقی حکومتیں ہی آمنے سامنے ہیں۔

پیپلز پارٹی نے  کراچی میں ہونے والی لوڈ شیڈنگ، مہنگائی اور دیگر مسائل پر احتجاج کیا  لیکن کے الیکٹرک تو کراچی میں ہے جبکہ مہنگائی پر قابو پانے کیلئے ذخیرہ اندوزی اور منافع خوری ختم کرنا ضروری ہے۔

کیا وفاق اسلام آباد سے چل کر کراچی میں موجود ذخیرہ اندوزوں کے خلاف قانونی کارروائی کرسکتا ہے؟ جبکہ سندھ پولیس اور صوبائی ادارے سندھ حکومت کے ماتحت ہیں۔ پیپلز پارٹی کی حکومت میں ہونے کے باوجود احتجاج کی پالیسی سمجھ سے بالاتر ہے۔

آٹا اور ضروریاتِ زندگی کی اشیاء کی قیمتیں 

کراچی سمیت سندھ بھر میں بلکہ ملک بھر میں آٹا، دالیں، سبزیاں اور ضروریاتِ زندگی کی اشیاء ہر گزرتے روز کے ساتھ مہنگی ہورہی ہیں جس پر قابو پانا صرف سندھ حکومت یا وفاق کا نہیں بلکہ ضلعی انتظامیہ کا بھی فرض ہے۔

تین روز قبل چکی کے آٹے کی قیمت میں 3 روپے فی کلو اضافہ ہوا۔ ترجمان آٹا چکی اونرز ایسوسی ایشن کے مطابق آٹے کی نئی قیمت 68 روپے فی کلو تک جا پہنچی جبکہ اوپن مارکیٹ میں گندم کا ریٹ 2100 روپے فی من ہوگیا۔ 

ایک جانب وفاقی حکومت ریلیف کا اعلان کرتی ہے تو دوسری جانب مافیا قیمتوں میں کمی ہونے ہی نہیں دیتا اور تمام تر اشیاء کو ذخیرہ کر لیا جاتا ہے جس کے پیچھے موجود سیاسی شخصیات بھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بے نقاب ہو رہی ہیں۔

لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ

پاکستان بھر میں لوڈ شیڈنگ شاید اتنا بڑا مسئلہ نہیں جتنا بڑا یہ مسئلہ کراچی میں بن چکا ہے کیونکہ کراچی ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے اور یہاں کے الیکٹرک کبھی تکنیکی خرابی اور کبھی بارش کے دوران لوڈ شیڈنگ، اوور بلنگ اور شہریوں کو ناجائز تکلیف دینے میں مصروف ہے۔ 

جس ادارے کو بجلی کی سپلائی کی ذمہ داری دی جاتی ہے وہی لوڈ شیڈنگ کا بھی ذمہ دار ہوتا ہے۔ اگر ہم کراچی کی بات کریں تو یہاں کے الیکٹرک ہی لوڈ شیڈنگ کا ذمہ دار ادارہ ہے جس کے خلاف احتجاج اور کارروائی دونوں ضروری ہیں۔

سندھ حکومت اور وفاق کے الیکٹرک کی طرف سے کی جانے والی لوڈ شیڈنگ کاملبہ ایک دوسرے پر ڈال کر سیاسی پوائنٹ اسکورنگ میں مصروف ہیں جبکہ کراچی کے شہری شدید گرمی میں بجلی نہ ہونے سے سخت پریشان ہیں۔

پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں

بین الاقوامی منڈی میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں گزشتہ دنوں ریکارڈ بریکنگ حد تک گر گئیں جس کا پاکستان فائدہ نہیں اٹھا سکا جس کی ذمہ داری سراسر وفاقی حکومت پر عائد ہوتی ہے کیونکہ وہ ملک بھر میں پٹرولیم مافیا پر قابو نہیں پاسکی۔

دوسری جانب سندھ حکومت بھی پٹرولیم کی قیمتوں میں ہونے والی کمی کا اطلاق صوبے بھر میں کروانے میں ناکام رہی جس میں ضلعی انتظامیہ اور دیگر متعلقہ ادارے بھی برابر کے ذمہ دار ہیں۔

اوگرا کے مطابق پٹرول کی مقررہ مقدار پٹرول سپلائی کرنے والی کمپنیوں کو دے دی گئی گئی، اس کے باوجود کمپنیوں نے پٹرول عوام کو فروخت نہیں ہونے دیا اور عوام اس فائدے سے محروم رہے جو ان کا حق تھا۔

ذمہ دار کون؟

سوال یہ ہے کہ مشکلات اور مسائل پیدا کرنے والا کون ہے اور مہنگائی اور لوڈ شیڈنگ جیسے مسائل کے ذمہ داران کو کیفرِ کردار تک پہنچانا کس کی ذمہ داری ہے؟ وفاقی حکومت، سندھ حکومت یا وفاق کی؟؟

عوام جس کی طرف اشارہ کرتے ہیں وہ اپنا ہاتھ دوسرے کے گریبان کی طرف بڑھا دیتا ہے کہ اسے پکڑو۔ میرا تمہارے مسائل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ کیا عوام کے مسائل کبھی حل ہوں گے؟

وزیرِ اعظم عمران خان پر عوام کا اعتماد آج بھی بحال ہے۔ وزیرِ اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ بھی عوام کی خدمت کرنا چاہتے ہیں لیکن مہنگائی مافیا پر قابو پانے میں وفاقی اور صوبائی حکومت کے ساتھ ساتھ ضلعی انتظامیہ بھی ناکام ہے۔

وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو عوام کے مسائل کے حل کیلئے ایک دوسرے کے خلاف احتجاج کی بجائے مشترکہ حکمتِ عملی پر کام کرنا ہوگا تاکہ شہریوں کے مسائل حل ہوں اور وہ آئندہ انتخابات میں موجودہ حکومتوں کو ہی ووٹ دیں۔ 

Related Posts