وزیر اعظم شہباز شریف نے گزشتہ روز اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ کچھ گھنٹوں قبل نیو یارک پہنچا ہوں، سیلاب سے متاثرہ پاکستان کی کہانی پوری دنیا کے سامنے رکھوں گا تاکہ عالمی برادری سمجھ سکے کہ پاکستان میں کن امور پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
ٹوئٹر پیغام سے محسوس ایسا ہوتا ہے کہ وزیر اعظم سیلاب زدگان کیلئے عالمی برادری کی امداد حاصل کرنے کیلئے ہی امریکا پہنچے ہیں اور 23 ستمبر کو وزیر اعظم اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کرکے پاکستان کا مقدمہ عالمی برادری کے سامنے رکھیں گے۔
گزشتہ روز وزیر اعظم نے مقبوضہ فلسطین کے صدر محمود عباس کا پاکستان میں سیلاب زدگان کی امداد کیلئے ریپڈ رسپانس اینڈ ریسکیو ٹیم بھیجنے پر شکریہ ادا کیا۔ وزیرِ اطلاعات مریم اورنگزیب نے بھی خبر دی کہ اقوامِ متحدہ میں تصویروں کی نمائش لگی ہوئی ہے۔
وفاقی وزیرِ اطلاعات مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ اقوامِ متحدہ میں وزارتِ اطلاعات نے وزیر اعظم شہباز شریف کی ہدایت پر تصویری نمائش کا اہتمام کیا ہے جس میں پاکستان میں سیلاب سے پیدا ہونے والی صورتحال کو اجاگر کیا گیا ہے۔
ایک طرف پاکستان میں سیلاب زدگان کیلئے بیرونِ ممالک سے ٹنوں کے حساب سے امداد آرہی ہے اور سیلاب متاثرین بے یارومددگار کھلے آسمان تلے تاحال امداد کے منتظر نظر آتے ہیں۔ حکومت کہتی ہے کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں سیلاب متاثرین کی رقم ہیکرز نے لوٹ لی ہے۔
رقم ہیک ہونے کا انکشاف سامنے آنے کے بعد بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی سربراہ شازیہ عطا مری نے ایف آئی اے کو تحقیقات کے احکامات جاری کردئیے تاہم اس خبر پر سوشل میڈیا پر سامنے آنے والا عوامی ردِ عمل کافی حیرت انگیز تھا۔
بلاشبہ پاکستان میں سیلاب سے بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے۔ 1 ہزار 545افراد جاں بحق جبکہ 12ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ ملک بھر میں نظامِ صحت کا بنیادی ڈھانچہ شدید متاثر ہوا۔ کل 1625 مراکزِ صحت کو نقصان پہنچا جس کا تخمینہ 65 ارب سے زائد ہے۔
نیشنل ڈزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے مطابق پاکستان میں سیلاب سے کم و بیش 3 کروڑ 30 لاکھ افراد متاثر ہوئے جبکہ سیلابی علاقوں میں 1 روز میں وبائی امراض کے 65 ہزار سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے۔
دراصل سیلابی پانی تاحال رہائشی علاقوں سے نکالا نہیں جاسکا اور جگہ جگہ کھڑا ہوا یہ پانی مچھروں کی افزائش اور تعفن سے امراض میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔ پاکستان میں سیلاب سے ہونے والے جانی نقصان کے بعد ایک اور انسانی المیہ جنم لے رہا ہے جو تصور سے بڑھ کر افسوسناک ہوسکتا ہے۔
امریکا کا دورہ ہو یا عالمی برادری سے امداد کی اپیلیں، یہ سب کچھ اس وقت تک کارگر ثابت نہیں ہوسکتا جب تک کہ حکومت سیلاب متاثرین تک امداد کی صاف و شفاف اور تیز ترین ترسیل کا کوئی معقول نظام قائم نہیں کرتی۔ اربابِ اقتدار کو ان تمام مسائل کے حل کیلئے کام کرنا ہوگا۔