آنے والا ویک اینڈ پاکستانی تاریخ کا فیصلہ کن ہو گا کیونکہ یہ وزیر اعظم کے دور کے اختتام کی گھڑی بھی ثابت ہوسکتا ہے، کیونکہ عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ اتوار کو ہونے کی توقع ہے اور جب تک کوئی معجزہ انہیں نہیں بچاتا،وزیراعظم کی ہاریقینی ہے۔
وزیر اعظم اپنے آپ کو بے خوف ظاہر کررہے ہیں اور انہوں نے آخری گیند تک لڑنے کے عزم کا اظہار کیا ہے، انہوں نے یہ جانتے ہوئے بھی استعفیٰ دینے سے انکار کر دیا ہے کہ اس سے اپوزیشن کو ایک موقع ملے گا۔ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے اراکین اسمبلی کی وفاداریاں تبدیل کرانے کی ہر ممکن کوششیں کی جارہی ہے۔
وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے اب یہ بیانیہ سامنے آرہا ہے کہ ان کے خلاف کوئی غیر ملکی سازش ہے اور اس کا اصل ہدف ملک نہیں وہ ذاتی طور پر ہیں۔ وزیر اعظم کا ماننا ہے کہ غیر ملکی طاقتیں اُن کے خلاف اس لئے ہوئی ہیں کیونکہ وہ آزاد خارجہ پالیسی پر عمل پیرا تھے اور انہوں نے روس کے ساتھ تعلقات کو بڑھایا،وزیر اعظم نے عوام کے سامنے اپنا مقدمہ رکھ دیا ہے اور ان کا دعویٰ ہے کہ ان کے خلاف غیر ملکی سازش ہورہی ہے۔
جمعرات کی شام وزیر اعظم کا قوم سے خطاب الوداعی تقریر کی طرح محسوس ہورہا تھا، انہوں نے اپنے کیرئیر کے حوالے سے بتایا اور کہا کہ پاکستانی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شامل ہونے کے بعد کس طرح مایوس ہو گئے تھے،جس کے باعث ملک میں دہشت گردی کی لہر پھیل گئی تھی اور ملک غیر ملکی طاقتوں کے تابع ہوگیا تھا، نتیجتاً پاکستان نے ڈرون حملوں کا سامنا کیا، ہزاروں جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور معاشی طور پر جدوجہد کی۔ وزیر اعظم نے کہا کہ وہ ملک کو آزاد خارجہ پالیسی کی طرف لے جانا چاہتے تھے جس کے باعث غیر ملکی قوتیں ناراض ہوئیں اور ان کی خواہش ہے کہ انہیں ہٹادیا جائے۔
اس بیانیے کا شاید عدم اعتماد کے اقدام پر کوئی اثر نہ ہو اور یقیناً اپوزیشن بھی اس سے متاثر نہیں ہوگی، لیکن عوام پر اس کا اثر ضرور پڑے گا۔ وزیراعظم اس بات کو سمجھتے ہیں۔ وہ ان لوگوں کے جذبات کو جانتے ہیں جو دہشت گردی کے خلاف جنگ سے متاثر ہوئے ہیں اور وہ بیرونی مداخلت کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ موقع ہے عوام کو متنبہ کرنے کا کہ وہ اپوزیشن جماعتوں سے ہوشیار رہیں۔
عدم اعتماد کے ووٹ کے نتیجے سے قطع نظر عمران خان کا سیاسی کیرئیر کسی طور بھی ختم نہیں ہوا۔ انہوں نے مضبوطی سے واپس آنے کا عزم کیا ہے اور انہوں نے کہا کہ اگر انہیں اقتدار سے نکالاگیا تو وہ زیادہ خوفناک ثابت ہوں گے اور اگر وہ عدم اعتماد کے اقدام سے بچ جاتے ہیں تو وہ یقینی طور پر ناقابل تسخیر ہوگا۔