ن لیگ نے فضل الرحمٰن کو ہاں کردی

کالمز

Role of Jinn and Magic in Israel-Iran War
اسرائیل ایران جنگ میں جنات اور جادو کا کردار
zia
ترکی کا پیمانۂ صبر لبریز، اب کیا ہوگا؟
zia
جنوبی شام پر اسرائیلی قبضے کی تیاری؟

ملک کی سیاسی تاریخ میں جب بھی حکومت کے خلاف کوئی احتجاجی تحریک شروع کی گئی اس میں مذہبی جماعتوں نے اہم کردار ادا کیا، مدرسوں کے طلبہ 1977ء کی اینٹی بھٹو تحریک میں بھی اہم کردار ادا کر چکے ہیں، ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خلاف جب مارچ 1977ء کے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد‘ پاکستان قومی اتحاد نے تحریک شروع کی تو ابتداء میں اس میں لوگ بہت بڑی تعداد میں شرکت نہیں کررہے تھے لیکن رفتہ رفتہ تحریک زور پکڑتی گئی،اس تحریک میں جان ڈالنے کے لیے دینی مدارس کے طلبہ اور علماء نے بڑا اہم کردار ادا کیا تھا۔
اس باربھی تاریخ ایک بار پھر خود کو دہرانے جارہی ہے، پاکستان کی ایک اہم مذہبی سیاسی جماعت جمعیت علماء اسلام (ف)عمران خان کی حکومت کے خاتمے کیلئے تیاریاںکررہی ہے ،27اکتوبر کو شروع ہونیوالی اس تحریک کیلئے چاروں صوبوں سے جمعیت علمائے اسلام کے مدارس کے طلبہ اور اساتذہ جن کی تعداد لاکھوں میں ہے ان کو متحرک کیا جارہا ہے،اس مارچ پر اٹھنے والے اخراجات کے لیے چندہ بھی دینی مدارس اور جے یو آئی سے ہمدردی رکھنے والے افراد دے رہے ہیں، جمعیت علماء اسلام کا دعویٰ ہے کہ وہ پندرہ لاکھ افراد کو اسلام آباد میں آزادی مارچ اوردھرنے کیلئے لائے گی۔
آزادی مارچ میں ابھی تین ہفتے باقی ہیں، ان تین ہفتوں میں مارچ کو رکوانے کے لئے حکومت بھی اپنا زور لگائے گی،وزیر داخلہ اعجاز شاہ بڑے یقین سے کہہ رہے ہیں کہ مولانا آزادی مارچ نہیں کریں گے، کے پی کے کے وزیراعلیٰ نے تو یہ دعویٰ کر دیا ہے کہ مولانا فضل الرحمان کو ان کے گھر سے نہیں نکلنے دیں گے جبکہ جے یو آئی نے جواباً وزیراعلیٰ چیلنج کیا ہے کہ وہ مارچ میں شریک ہونے والوں کوروک کر دکھائیں۔ اس لانگ مارچ کو روکنے کے لئے فورس کا استعمال ہوا تو اس کا نتیجہ تصادم کی شکل میں نکلے گا، تصادم یا خون خرابہ کے مضمرات بھی سنگین ہوں گے۔

یہ بھی پڑھیں:مولانا فضل الرحمان کا 27اکتوبر کو آزادی مارچ کا اعلان

بالآخر اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے 27اکتوبر2019ء کو اسلام آباد کی جانب شروع ہونے والے آزادی مارچ میں شرکت کا اعلان کر کے جمعیت علما ء اسلام (ف) کے سر براہ مولانا فضل الرحمن کے پولیٹیکل ایڈونچر میں جان پیدا کر دی ہے۔ بظاہر تومولانا فضل الرحمن نے حکومت گھر بھیجنے کی تیاری کر رکھی ہے لیکن وہ اپنے اتحادیوں کوبتانے سے گریزاں ہیں کہ وہ کس طرح حکومت کادھڑن تختہ کریں گے۔مولانا فضل الرحمن سب کو یہی کہتے ہیں کہ ’’مجھ سے سوال جواب کرنے کی بجائے ہاتھ باندھ کر میرے پیچھے چلیں کشتی ساحل تک پہنچانا میری ذمہ داری ہے مناسب وقت سب کچھ بتا دوں گا‘‘۔ دوسری طرف دیکھا جائے توحکومتی حلقوں میں ضرورت سے زائد بے چینی اور اضطراب پایا جاتا ہے،جس طرح حکومتی عہدیداروں کی طرف سے ردعمل کا اظہار کیا جا رہا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے مولانا فضل الرحمن کا ’’آزادی مارچ اور دھرنا‘‘ حکومت کے اعصاب پر سوار ہے ،اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وزیر اعظم چاروں صوبائی گورنروں کو اسلام آباد میں طلب کر چکے ہیںاوروزیر اعظم نے گورنروں سے ’’آزادی مارچ اور دھرنا‘‘ کو روکنے کیلئے مشاورت کی ہے۔ اب مسلم لیگ ن کے قائد میاں محمد نوازشریف نے دوٹوک الفاظ میں ’’آزادی مارچ اور دھرنا‘‘ میں شرکت کا اعلان کر کے کنفیوژن کی فضا ختم کر دی ہے۔

مولانا فضل الرحمٰن کا دھرنا کامیاب ہو یا ناکام عوام کی مشکلات میں اضافہ ہی کریگا۔ حکومت دھرنے اور مارچ کے خلاف سخت اقدامات کے بجائے صورت حال کو مذاکرات کے ذریعے نارمل رکھنے کی کوشش کرے، مولانا فضل الرحمٰن سے رابطوں کا فیصلہ درست اور بروقت ہے۔ حکومت اپوزیشن کے احتجاج کے غبارے سے ہوا عوام کو مہنگائی کے حوالے سے مطمئن کر کے بھی نکال سکتی ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن بھی حکومت کی طرف سے مذاکرات کی پیشکش پر سنجیدگی سے غور کریں۔