مسلم لیگ (ن) کے رکن پنجاب اسمبلی رانا محمد فیاض نے جمعہ کو پنجاب اسمبلی سیکریٹریٹ میں ایک قرارداد جمع کروائی جس میں پاکستان تحریک انصاف پر پابندی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
قرارداد میں پی ٹی آئی کو ایک “انتشار پسند گروہ” قرار دیا گیا ہے جو سیاسی جماعت کے لبادے میں کام کر رہا ہے۔ اس میں 24 نومبر 2024 کے واقعات کے ذمہ داران کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کیا گیا ہے اور پی ٹی آئی پر ملک کو غیر مستحکم کرنے اور انتشار پھیلانے کے الزامات لگائے گئے ہیں۔
یہ اقدام اسلام آباد اور ملک کے دیگر حصوں میں حالیہ پرتشدد مظاہروں کے بعد پی ٹی آئی کی سرگرمیوں کو محدود کرنے کے بڑھتے ہوئے مطالبات کے پس منظر میں سامنے آیا ہے۔ اس سے پہلے بلوچستان اسمبلی میں بھی اسی نوعیت کی ایک قرارداد پاس کی گئی تھی، جس میں پی ٹی آئی پر عدلیہ، میڈیا اور معیشت جیسے اہم اداروں کو نقصان پہنچانے کا الزام لگایا گیا تھا اور پارٹی پر پابندی کے لیے وفاقی مداخلت کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
پنجاب اسمبلی کی قرارداد میں صوبائی وزراء نے بھی حمایت کا اظہار کرتے ہوئے پی ٹی آئی پر 9 مئی 2023 کے مظاہروں میں عوامی اور عسکری املاک پر حملوں کا الزام لگایا۔ اس کے علاوہ خیبر پختونخوا کی حکومت پر ریاستی وسائل کو وفاقی اختیار کو چیلنج کرنے کے لیے استعمال کرنے کا الزام عائد کیا گیا، جسے ایک “غیر سیاسی ایجنڈا” قرار دیا گیا۔
بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن نے اس قرارداد پر احتجاج کرتے ہوئے واک آؤٹ کیا اور پی ٹی آئی کے ساتھ ہونے والے سلوک کو نامناسب قرار دیا۔
عمران خان کو زہر دینے کی تیاریاں، کونسا پی ٹی آئی رہنما کپتان کو قتل کروائے گا؟ سنسنی خیز انکشافات
وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی پی ٹی آئی کی حالیہ کارروائیوں کی مذمت کی۔ جمعرات کو قانون و امن و امان کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے ایک اعلیٰ سطح اجلاس کے دوران، انہوں نے پیشہ ورانہ اینٹی رائٹ فورسز قائم کرنے کی ہدایت کی تاکہ آئندہ ہنگاموں سے بچا جا سکے۔
وزیر اعظم نے پی ٹی آئی پر ملک کو معاشی نقصان پہنچانے کا الزام لگایا اور کہا، “قانونی راستہ اپنانے کی بجائے بار بار اسلام آباد پر چڑھائی کرکے ملک میں انتشار پھیلانے کی کوشش کی گئی۔”
انہوں نے متعلقہ حکام کو ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے حکمت عملی تیار کرنے اور ذمہ داران کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کی ہدایت کی۔
پی ٹی آئی کا حالیہ “کرو یا مرو” احتجاج اسلام آباد میں وسیع پیمانے پر انتشار کا باعث بنا، جسے حکومتی کریک ڈاؤن کے بعد اچانک ختم کر دیا گیا۔
اس احتجاج کے دوران مجموعی طور پر 1151 مظاہرین کو گرفتار کیا گیا، جن میں 64 افغان شہری بھی شامل تھے۔ حکام نے دعویٰ کیا کہ گرفتار شدگان سے اسلحہ، بال بیرنگز اور کیلوں والے ڈنڈے برآمد کیے گئے ہیں تاہم پی ٹی آئی رہنما سلمان اکرم راجہ نے دعویٰ کیا کہ مظاہروں میں 20 افراد جاں بحق ہوئے، جسے حکام نے مسترد کر دیا۔