تقریبا دو سال کے مذاکرات کے بعد امریکا اور افغان طالبان امن معاہدے پر دستخط کرنے کے لئے تیار ہیں جو کئی دہائیوں سے جاری تنازعہ کو ختم کرسکتا ہے۔ پاکستان کو بھی دوحہ میں ہونے والی تقریب میں شرکت کی دعوت دی گئی ، جس نے پورے امن عمل میں اہم کردار ادا کیا۔
اس تاریخی موقع سے چند روز قبل وزیراعظم عمران خان مختصر ایک روزہ دورے پر قطر گئے جہاں ان کی قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد سے ملاقات ہوئی۔وزیراعظم کے دورے کی مکمل تفصیلات سے آگاہ نہیں کیا گیا ہے سوائے اس کے کہ تجارت ور سیاحت سے متعلق معاہدوں پر دستخط ہوئے۔ دفتر خارجہ نے اسے دوطرفہ تعاون کو مستحکم کرنے اور علاقائی سطح پر تعلقات کو بہتر بنانے کا روٹین دورہ قرار دیا ہے۔
افغان امن معاہدے پر دستخط سے قبل وزیراعظم کا دورہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ امریکا ور افغان طالبان کے مابین ثالثی کی سہولت کے لئے قطر نےاہم کردار کیا ہے جس نے اپنے ملک میں دونوں فریقین کے لیے دفتر قائم کیا۔ وزیر اعظم نے قطری حکومت کی کاوشوں کا اعتراف کیا اور افغان مفاہمتی عمل میں پاکستان کے کردار کو دہرایا۔
دونوں رہنماؤں نے اتفاق کیا کہ یہ ایک تاریخی موقع ہے اور افغانستان کو پائیدار امن و استحکام کے قیام کے تاریخی موقع سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔امریکا اور افغان طالبان کے درمیان ایک ہفتے ہے جزوی امن معاہدے کے باوجود بہت سے افغان حتمی طور پر ملک سے تشدد کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ امن معاہدہ صرف افغان تنازعہ کا خاتمہ نہیں بلکہ مستقبل کی جانب ایک قدم ہے۔
ایک اور اہم مسئلہ جس پر بحث کی گئی وہ تنازعہ کشمیر تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان تنازعہ کشمیر پر سعودی عرب اور دوسرے خلیجی ممالک کی توجہ نہ ہونے کے باعث قطر کی طرف متوجہ ہو رہا ہے۔ او آئی سی اس معاملے پر بات کرنے سےگریزاں ہے اور اگلے اجلاس میں معاملے پر بات کرنے کی پاکستان کی درخواست کو مبینہ طور پر مسترد کردیاگیا ہے۔ قطر کو سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے دو سال تک تنہا کرنے کی کوشش کی جاچکی ہے اور تنازعہ کشمیر پر تبادلہ خیال کرنے سےضرور وہ اس جانب متوجہ ہوں گے۔
یہ دورہ کے ایل سربراہی اجلاس کے پس منظر میں بھی اہمیت کا حامل ہے جس میں سعودی عرب کے دباؤ کی وجہ سے پاکستان نے شرکت نہیں کی تھی۔ اس سربراہی اجلاس کی قیادت کرنے والے تین ممالک میںقطر بھی شامل تھا، پاکستان سفارتی شرمندگی سے بچنے کے لئے قطر سے خوشگوار تعلقات برقرار رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ وزیراعظم عمران کے ایل سمٹ کے فوراً بعد ملائشیا بھی گئے تھے اور رواں ماہ کے آغاز میں ترک صدر نے وزیراعظم کی دعوت پر پاکستان کا دورہ کیا تھا۔
ان تینوں ممالک کے ساتھ پاکستان کے روابط دیکھ کرلگتا ہے کہ پاکستان دوسرے ممالک کے ساتھ بھی تعلقات استوار کرسکتا ہے۔ وزیر اعظم ذاتی طور پر ان ممالک سے خوشگوار روابط برقرار رکھنے کے لئے دورے کررہے ہیں کیوں کہ کسی ملک کی خواہش پر دوسرے ملک سے تعلقات خراب نہیں کرنے چاہیے۔ وزیر اعظم کی قائدانہ صلاحیتیں اس بات کا ثبوت دیتی ہیں کہ وہ سفارتی بحران سےنمٹنے کے لیے کوششیں کررہے ہیں۔