کیا عمران خان کا احساس ایمرجنسی کیش پروگرام عوام کو ریلیف دے پائے گا؟

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

کیا عمران خان کا احساس ایمرجنسی کیش پروگرام عوام کو ریلیف دے پائے گا؟
کیا عمران خان کا احساس ایمرجنسی کیش پروگرام عوام کو ریلیف دے پائے گا؟

وزیرِ اعظم پاکستان عمران خان کی قیادت میں تحریکِ انصاف کی وفاقی حکومت نے ایک قابلِ تعریف قدم اٹھایا ہے جسے عمران خان کے احساس ایمرجنسی کیش پروگرام کا نام دیاگیا۔

اس مستحسن اقدام کا پس منظر یہ ہے کہ کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے ملک کے تمام تر صوبوں میں لاک ڈاؤن نافذ ہے جس کے تحت دیہاڑی دار مزدور عوام قلاش ہوچکے ہیں۔

غربت سے تنگ افراد کیلئے مالی امداد کا اعلان بلا شبہ حبس زدہ ماحول میں تازہ ہوا کے جھونکے کی مانند ہے جبکہ  دیہاڑی دار، مزدور پیشہ اور غریب افراد کے لیے احساس ایمرجنسی کیش پروگرام کے نام پر ایک معقول رقم دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔

احساس ایمرجنسی کیش پروگرام کیا ہے؟

وزیرِ اعظم عمران خان کے احساس ایمرجنسی کیش پروگرام سے مراد غریبوں کی فلاح و بہبود کا وہ پروگرام ہے جس کے تحت 144 ارب روپے ملک کے 1 کروڑ 20 لاکھ خاندانوں میں تقسیم کیے جائیں گے۔

پروگرام کے تحت ایک مستحق خاندان 12 ہزار روپے کی رقم حاصل کرسکے گا جبکہ اس پروگرام سے ملک کے تمام علاقے بشمول پنجاب، سندھ، سرحد، بلوچستان، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان فیض یاب ہوسکتے ہیں۔ 

ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کے مطابق امدادکی فراہمی کے لئے جانچ پڑتال کامؤثر طریقہ کاراپنایاگیاہے تاکہ شفافیت کے عمل پرکوئی انگلی نہ اٹھاسکے۔رواں ہفتے حقداروں کو یہ رقوم ملنے کاسلسلہ شروع ہوجائے گا۔

فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ وزیرِ اعظم کے احساس ایمرجنسی کیش پروگرام کے تحت  مستحقین شراکتی بینکوں سے رقم وصول کرسکیں گے۔علاوہ ازیں ہم  صوبائی حکومتوں کے ساتھ ملکراضافی کاؤنٹرزکاانتظام بھی کررہے ہیں۔

پروگرام کی مقبولیت اور درخواست دینے کا طریقہ کار

 وزیرِ اعظم پاکستان عمران خان کا احساس ایمرجنسی کیش پروگرام عوام میں ہر گزرتے روز کے ساتھ مقبول ہو رہا ہے۔ پروگرام  میں شمولیت کے لیے 3 کروڑ 45 لاکھ افراد اب تک  ایس ایم ایس بھیج چکے ہیں۔ 

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر احساس پروگرام کی سربراہ ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے کہا کہ اگر آپ بھی احساس ایمرجنسی کیش پروگرام میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو اس کے لیے اپنا شناختی کارڈ نمبر 8171 پر ایس ایم ایس کریں۔

شناختی کارڈ نمبر ایس ایم ایس کرنے کے لیے اسپیس کے بغیر لکھنا ضروری ہے جبکہ نااہلیت کی صورت میں آپ کو منفی جواب موصول ہوجائے گا۔ 

درخواست دینے کی اہلیت 

احساس ایمرجنسی کیش پروگرام میں سرکاری ملازمین کو حصہ لینے کی اجازت نہیں ہے۔ وزیرِ اعظم عمران خان نے پروگرام کا جائزہ لینے کے لیے جب اپنا شناختی کارڈ نمبر ایس ایم ایس کیا تو انہیں منفی جواب ملا۔

وزیرِ اعظم عمران خان کو احساس ایمرجنسی کیش پروگرام سے رقم وصول کرنے کی درخواست پر جواب ملا کہ آپ سرکاری ملازم ہونے کی وجہ سے کیش پروگرام کے اہل نہیں ہیں۔ 

لاک ڈاؤن اور معاشرتی طبقات میں اتار چڑھاؤ 

کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے نافذ کیا گیا لاک ڈاؤن ملک کے 22 کروڑ عوام کیلئے مشکلات کا باعث بن گیا ہے۔ آج امیر طبقہ خود کو مڈل کلاس کی سطح پر محسوس کر رہا ہے جبکہ مڈل کلاس غریب عوام بنتے جار ہے ہیں۔

ایسے  میں وہ غریب خاندان جو دو وقت کی روٹی بھی مشکل سے پوری کر رہے تھے، مصنوعی مہنگائی اور لاک ڈاؤن کے زیرِ اثر فاقوں یا پھر ہاتھ پھیلانے تک جا پہنچے ہیں۔ انہیں قرض کوئی اس لیے نہیں دیتا کہ ان سے رقم کی واپسی کی کوئی امید نہیں رہی۔ 

کیا اتنی مدد کافی ہے؟ 

لاک ڈاؤن کے پیشِ نظر 12 ہزار روپے کی رقم ناکافی دکھائی دیتی ہے کیونکہ ایک بار یہ رقم مل جانے کے بعد ایک غریب انسان اس رقم سے اپنے گھر کے لیے راشن خریدے گا، روزانہ کے اخراجات پورے کرے گا یا گزشتہ قرضے ادا کرے گا؟

بلا شبہ لاک ڈاؤن ایک انتہائی تکلیف دہ صورتحال ہے جس سے جتنی جلدی چھٹکارا مل جائے، پاکستان کے لیے اتنی ہی اچھی بات ہوگی، تاہم کورونا وائرس جیسی عالمی وباء کو روکنے کے لیے حکومت کے پاس لاک ڈاؤن سے بہتر کوئی آپشن بھی نہیں۔

مزید اقدامات کی ضرورت 

تکلیف دہ امر یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کی لڑائی میں بعض قابلِ تعریف اقدامات بھی دب کر رہ جاتے ہیں۔ احساس ایمرجنسی کیش پروگرام غریبوں کی حقیقی ضروریات پوری کرنے کے لیے ناکافی سہی، محروم طبقات کے لیے امید کی کرن ضرور قرار دیاجاسکتا ہے۔

کسی غریب کے لیے 12 ہزار روپے کی رقم کتنی اہم ہے، اس کا فیصلہ ہم اور آپ نہیں کرسکتے بلکہ یہ فیصلہ اس غریب پر چھوڑنا ہوگا جسے قرض کی ادائیگی، راشن کی خریداری یا گھریلو ضروریاتِ زندگی کو پورا کرنے کے لیے یہ انتہائی معقول رقم دکھائی دیتی ہے۔

اس کے باوجود ہماری ناقص رائے یہی ہے کہ عوام الناس کی مدد کیلئے حکومت کی تمام تر کوششیں سمندر پیدا کرنے کے لیے ایک قطرے کے مترادف ہیں۔غریب عوام کی مدد کیلئے اس سے بڑھ کر اور بڑے اقدامات کی ضرورت ہے۔ 

عوام کے فرائض 

حکومت کے ساتھ عوام کا رشتہ دو طرفہ ہوتا ہے۔ ہم جو ٹیکس دیتے ہیں، آگے چل کر حکومت اسی ٹیکس کی رقم سے ترقیاتی منصوبوں پر کام کرتی ہے یا کسی فلاحی منصوبے میں عوام کی مدد کی جاتی ہے۔ 

حکومت کا فرض ہے کہ عوام کی ہر ممکن مدد کرے، تاہم عوام کا بھی فرض ہے کہ کورونا وائرس جیسی عالمی وباء، لاک ڈاؤن کی ملک گیر صورتحال اور غریبی کے پیشِ نظر ہر ممکن اقدامات اٹھائیں۔

ہم میں سے ہر شخص غریب نہیں بلکہ کچھ لوگ امیر اور کچھ بے حد امیر بھی ہیں، لہٰذا مخیر حضرات کے ساتھ ساتھ ہمسایوں کو بھی چاہئے کہ ایک دوسرے کا خیال رکھیں۔

عوام  ایک دوسرے کی مدد کیلئے اپنی مدد آپ کا نظام ترتیب دے سکتے ہیں۔ غریب اور بے سہارا افراد کی مدد کیلئے جس سے جو بن پڑے، اسے ضرور کرنا چاہئے۔ صرف وزیرِ اعظم کے ایمرجنسی کیش پروگرام سے امید لگانا درست نہیں ہوگا۔ 

Related Posts