وزیرِ اعظم پاکستان عمران خان نے وفاقی کابینہ میں تبدیلیوں سے متعلق بڑے فیصلے کیے ہیں جن میں سے 2 اہم فیصلے ندیم بابر کی جگہ تابش گوہر کو معاونِ خصوصی برائے پٹرولیم مقرر کرنا اور حفیظ شیخ کی جگہ حماد اظہر کو وزیرِ خزانہ بنانا ہیں جو آج سامنے آئے۔
یہاں یہ رائے قائم کی جاسکتی ہے کہ وزیرِ اعظم کو حفیظ شیخ اور ندیم بابر کو ان کے عہدوں پر برقرار رکھنا چاہئے تھا کیونکہ بار بار وفاقی وزراء کے قلمدان تبدیل کیے جانے سے محسوس ایسا ہوتا ہے کہ وفاقی وزراء کی کرسیوں پر شاید کوئی میوزک چیئرز کا کھیل جاری ہے، تاہم ایسا ہے نہیں۔
دراصل ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، بے روزگاری اور دیگر معاشی مسائل پر وزیرِ اعظم عمران خان کی سربراہِ مملکت ہونے کی حیثیت سے نظر ایک عام شہری کے مقابلے میں کہیں زیادہ گہری ہے۔ آئیے وزیرِ اعظم کے فیصلوں اور ان سے ملکی صورتحال پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ لیتے ہیں۔
ملک بھر میں پٹرول کا بحران اور معاونِ خصوصی ندیم بابر کی برطرفی
بے حد افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جون 2020ء کے دوران جب پٹرول کا مصنوعی بحران پیدا کیا گیا اور عالمی سطح پر جب پٹرول کی قیمتیں تاریخ کی کم ترین سطح پر آچکی تھیں، پاکستانی عوام کو اس کا رتی بھر بھی فائدہ نہ پہنچ سکا۔
عمران خان کو اس پٹرول بحران کا بڑا افسوس تھا، اس لیے انہوں نے تحقیقاتی اداروں کو پٹرول بحران کے اصل ذمہ داروں کا تعین کرنے کی ہدایت کی اور جب تک یہ تفتیش جاری رہے گی، یعنی 90 روز کیلئے ندیم بابر اپنے عہدے سے برطرف رہیں گے۔
ندیم بابر جون 2020ء کے پٹرول بحران کے دوران بھی اسی عہدے پر فائز تھے اور جب انہیں معاونِ خصوصی کے عہدے پر تعینات کیا گیا تو 21 اپریل 2019ء سے ہی ان کے خلاف میڈیا پر چہ مگوئیاں شروع ہوگئی تھیں۔
ان چہ مگوئیوں اور گفت و شنید کی وجہ یہ تھی کہ ندیم بابر توانائی کے سیکٹر میں ایک بڑی کمپنی اورینٹ پاور کے شیئرز رکھتے تھے جو خود ایک آئی پی پی کا درجہ رکھتی ہے۔ ایسے میں ندیم بابر کو پٹرولیم کا معاونِ خصوصی بنایا جانا معنی خیز تھا۔
آج ندیم بابر کو عہدے سے ہٹائے جانے کا نوٹیفیکیشن جاری کردیا گیا جو خوش آئند کہا جاسکتا ہے۔ یہ بھی بتاتے چلیں کہ اورینٹ پاور کے پارٹنرز میں پیرامڈ پاکستان پٹرولیم، اورینٹ آپریٹنگ کمپنی پرائیویٹ لمیٹیڈ، آرڈی سی انٹرنیشنل، نیٹیورس ریسورس اور پیج لمیٹڈ شامل ہیں اور ندیم بابر اپنے عہدے کا فائدہ اٹھا کر ان تمام کمپنیوں کو فائدہ پہنچا سکتے تھے جس پر میڈیا نے تحفظات ظاہر کیے۔
دوسری جانب تابش گوہر کو ندیم بابر کی جگہ معاونِ خصوصی پٹرولیم مقرر کردیا گیا جو 7 برس تک کے الیکٹرک میں سی ای او، ڈائریکٹر اور چیئرمین جیسے اہم عہدوں پر فائز رہے۔ 2015ء میں تابش گوہر نے استعفیٰ دے دیا تھا۔
تابش گوہر بجلی و توانائی کے شعبے میں معاونت و مشاورت کی کمپنی اوسیس کے بانی ہیں۔ امید کی جارہی ہے کہ تابش گوہر ندیم بابر کے مقابلے میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کریں گے۔
ڈاکٹر حفیظ شیخ کی برطرفی اور مہنگائی کا طوفان
جب بھی سابق وزیرِ خزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ یا گورنر اسٹیٹ بینک کا نام لیا جاتا ہے تو ذہن میں آئی ایم ایف سے ان دونوں حضرات کے تعلقِ باہمی کی یادیں تازہ ہوجاتی ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کا ذمہ دار اکثر و بیشتر انہی دو حضرات کو قرار دیا جاتا ہے۔
کابینہ ڈویژن نے آج وزیرِ ریونیو حماد اظہر کو وزارتِ خزانہ کا اضافی قلمدان سونپے جانے کا نوٹیفیکیشن جاری کردیا اور حفیظ شیخ وزارتِ خزانہ کے عہدے سے فارغ ہو گئے۔
قبل ازیں حماد اظہر اضافی وزارت ملنے پر وزیرِ اعظم عمران خان کا شکریہ ادا کرچکے تھے اور آج انہوں نے یہ بھی بتایا کہ حفیظ شیخ کورونا وائرس کا شکار ہو گئے ہیں جو ایک افسوسناک خبر ہے۔ حماد اظہر نے ان کیلئے نیک تمناؤں کا اظہار بھی کیا۔
گزشتہ روز ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے وزیرِ اطلاعات شبلی فراز کہہ چکے تھے کہ ڈاکٹر حفیظ شیخ کو مہنگائی کے باعث عہدے سے ہٹایا گیا۔ مہنگائی کے باعث وزیرِ اعظم عمران خان حفیظ شیخ کی بطور وزیرِ خزانہ کارکردگی سے مطمئن نہیں تھے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ حماد اظہر کا تقرر تحریکِ انصاف کے تقریباً پونے 3 سالہ دورِ حکومت میں وزارتِ خزانہ جیسے اہم عہدے پر تیسری تعیناتی ہے۔ پہلے اسد عمر وزیرِ خزانہ تھے، پھر ڈاکٹر حفیظ شیخ آئے اور اب حماد اظہر وزیرِ خزانہ بن چکے ہیں۔
آئینِ پاکستان کے تحت کوئی بھی غیر منتخب شخص وزیرِاعظم کی صوابدید پر 6 ماہ کیلئے وزیرِ مملکت تعینات کیا جاسکتا ہے۔ حفیظ شیخ کو دسمبر 2020ء میں وزارتِ خزانہ کا قلمدان سونپا گیا تھا۔
حفیظ شیخ جون 2021ء تک اس عہدے پر برقرار رہ سکتے تھے اور عہدے پر مزید برقراری کیلئے انہوں نے سینیٹر کے انتخاب میں حصہ بھی لیا اور3 مارچ 2021ء میں منعقدہ انتخاب میں یوسف رضا گیلانی کے مقابلے میں حفیظ شیخ ہار گئے۔حماد اظہر قبل ازیں 2 مالی سالوں کیلئے بجٹ پیش کرچکے ہیں۔
وفاقی کابینہ میں مزید متوقع تبدیلیاں
میڈیا پر چلنے والی بعض خبروں میں یہ دعوے بھی کیے گئے ہیں کہ خسرو بختیار کو بھی برطرف کیا جائے گا۔ شبلی فراز کا قلمدان تبدیل کرکے انہیں وزارتِ پٹرولیم اور ایوی ایشن کا قلمدان سونپ دیا جائے گا۔
توقع یہ بھی کی جارہی ہے کہ وزیرِ سائنس و ٹیکنالوجی کو وزارتِ اطلاعات کا اضافی قلمدان دے دیا جائے، حالانکہ پہلے یہی قلمدان فواد چوہدری سے واپس لے کر شبلی فراز کو سونپا گیا تھا، اگر وزیرِ اعظم عمران خان یہ فیصلہ کرتے ہیں تو اس پرسیاسی و سماجی حلقوں کی جانب سے حیرت کا اظہار ضرور سامنے آسکتا ہے۔
مزید برآں فواد چوہدری کو وزارتِ داخلہ بھی سونپی جاسکتی ہے، شہریار آفریدی سے کشمیر کمیٹی کی چیئرمین شپ واپس لی جاسکتی ہے اور فرخ حبیب کو وزیرِ مملکت بنایا جاسکتا ہے، تاہم تاحال ایسی کوئی تبدیلیاں نہیں کی گئیں۔ یہ سب کچھ وزیرِ اعظم عمران خان کی صوابدید پر منحصر ہے۔
اکھاڑ پچھاڑ کا مقصد
68 سالہ عمران خان ملک کے 22ویں وزیرِ اعظم ہیں اور تحریکِ انصاف کے جھنڈے تلے وزیرِ اعظم بننے کیلئے عمران خان نے کم و بیش 22 سال تک سیاسی جدوجہد کی۔
مہنگائی پر قابو پانا، آٹا، چینی اور پٹرول بحران سے نمٹنا اور ملک کو معاشی تحفظ فراہم کرنا وزیرِ اعظم عمران خان کی اوّلین ترجیح ہے۔ ایسے میں وفاقی کابینہ میں تبدیلیاں، برطرفیاں اور تقرر جیسے فیصلے وزیرِ اعظم کا استحقاق ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ایسے فیصلوں کے مثبت ثمرات ظاہر ہونے کی توقع کی جارہی ہے۔