کیا عمران خان کی کورونا ریلیف ٹائیگر فورس کورونا وائرس کو شکست دے پائے گی؟

مقبول خبریں

کالمز

"Conspiracies of the Elites Exposed!"
سرمایہ داروں کی خوشحالی، عوام کی غربت، پاکستان کی معیشت کا کھلا تضاد
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

وزیرِ اعظم کی کورونا ریلیف ٹائیگر فورس اور نوجوان
وزیرِ اعظم کی کورونا ریلیف ٹائیگر فورس اور نوجوان

وزیرِ اعظم پاکستان عمران خان نے گزشتہ روز خطاب کے دوران کورونا ریلیف ٹائیگر فورس کے قیام کا اعلان کیا جس کا مقصد کورونا وائرس کے خلاف مشکل وقت میں عوام کی مدد کرنا ہے، تاہم اس پر اپوزیشن رہنماؤں کی طرف سے منفی ردِ عمل دیکھنے میں آیا۔

ٹائیگر فورس کے اعلان پر منفی ردِ عمل 

سابق وزیرِ داخلہ احسن اقبال نے کہا کہ وزیرِ اعظم عمران خان دو ماہ قبل جس طرح کورونا وائرس کے خلاف جنگ کے تقاضوں سے لاعلم تھے، آج بھی اسی طرح لاعلم نظر آتے ہیں۔ انہوں نے چندے کے ذریعے عوام کی مدد کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔

مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما و سابق وزیرِ ریلوے خواجہ سعد رفیق نےوزیرِ اعظم کو مشورہ دیا  کہ ٹائیگر فورس پر عوامی وسائل  اور وقت ضائع نہ کریں بلکہ قوم کا جذبۂ اخوت بروئے کار لائیں۔

ان دونوں بیانات پر حکومت نے تادمِ تحریر تو کوئی ردِ عمل نہیں دیا، تاہم ہماری طرف سے ردِ عمل محض اتنا ہے کہ آپ ٹائیگر فورس کے قیام کو بھی جذبۂ اخوت بروئے کار لانے کی ایک کڑی قرار دے سکتے تھے جبکہ غربت سے تنگ عوام کو اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ وزیرِ اعظم ان کی مدد چندے سے کریں یا کسی اور ذریعے سے کی جائے۔

لاک ڈاؤن کے دوران  عوام بے روزگاری اور کسمپرسی سے بے حال ہیں۔ لوگ بھوکے سو رہے ہیں۔ اگر ان کی مدد کا کوئی بھی طریقہ کار وضع کیا جاتا ہے تو اس پر اپوزیشن کو اعتراض نہیں ہونا چاہئے۔ 

کورونا وائرس کے اعدادوشمار  اور صوبوں کی جنگ 

سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ کورونا وائرس کے حوالے سے اب تک جو اعدادوشمار سامنے آئے ہیں، ان میں بھی صوبوں، بالخصوص پنجاب اور سندھ کے مابین جنگ نظر آتی ہے۔

دو روز قبل یہ جنگ اُس وقت عروج پر نظر آئی جب ایک خاتون صحافی نے صوبائی وزیر شہلا رضا کو ٹوئٹر پیغام ڈیلیٹ کرنے کا مشورہ دیا۔ شہلا رضا نے کہا تھا کہ پنجاب میں کورونا وائرس کیسز سندھ سے زیادہ ہیں۔ ہمارے کیسز زیادہ تھے جو اب کم ہو گئے ہیں جو سندھ حکومت کی سخت پالیسیوں کا ثمر ہے۔

اس پر ارم زعیم نامی خاتون صحافی نے صوبائی وزیر شہلا رضا کو سمجھایا کہ سندھ میں 4 کروڑ 80 لاکھ جبکہ پنجاب میں 11 کروڑ لوگ رہائش پذیر ہیں۔ پنجاب کے 13 ہزار لوگوں کے ٹیسٹ سے 497 متاثر نکلے جبکہ سندھ کی صورتحال اس سے خراب ہے۔

خاتون صحافی کے مطابق دو روز قبل تک سندھ میں صرف 5500 افراد کو چیک کیا گیا تھا جن میں سے 457 افراد کے اجسام میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی۔ آپ اسے سندھ حکومت کی مثبت کارکردگی کیسے قرار دے سکتی ہیں؟ 

موجودہ اعدادوشمار کے مطابق ملک بھر میں  کورونا وائرس کے اب تک 1865کیسز  سامنے آئے ہیں جبکہ 25افراد  لقمۂ اجل بن چکے ہیں۔

اگر ہم صوبوں کے اعدادوشمار کی بات کریں تو سندھ میں اب تک 508 کے اجسام میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی جن میں سے 4 افراد جاں بحق ہوئے۔ پنجاب میں 638 افراد وائرس کا شکار جبکہ 6 افراد جاں بحق ہوئے۔ خیبر پختونخواہ میں 195 متاثرہ افراد میں سے 4 جاں بحق ہوئے جبکہ بلوچستان میں 144 تصدیق شدہ کیسز میں سے 1 فرد کے جاں بحق ہونے کی اطلاع موصول ہوئی ہے۔

اسلام آباد میں 51 افراد میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی جبکہ 2 افراد جاں بحق ہوئے۔ گلگت بلتستان کے 128 کیسز میں سے 1 جبکہ آزاد کشمیر کے 6 کیسز میں سے 1 فرد جاں بحق ہوا ہے۔

قومی المیے کو سیاسی چپقلش سے الگ رکھنے کی ضرورت

کورونا وائرس کے باعث ہر گزرتے دن کے ساتھ لوگ بیمار ہو رہے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا سرکاری مذہب اسلام ہے جو ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ ایک انسانی جان کا ضیاع دراصل پوری انسانیت کے ضیاع کے مترادف ہے۔ اس قومی المیے کو سیاسی بیان بازی سے الگ رکھتے ہوئے خلوصِ نیت سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔

یہ حکومت اور اپوزیشن کا میدانِ جنگ نہیں بلکہ ہمارا پیارا وطن پاکستان ہے جہاں لوگ اپنے پیاروں سے کورونا وائرس کے باعث دور ہوتے جا رہے ہیں۔ کورونا وائرس کے باعث ملک میں لاک ڈاؤن نافذ ہے جس کے سبب عوام کو بے روزگاری، معاشی مسائل، بھوک اور افلاس کا سامنا ہے۔ قومی المیے اور سیاسی چپقلش کو الگ رکھئے۔ 

ٹائیگر فورس اور حقیقی مسائل 

یہ بات سمجھنا بے حد ضروری ہے کہ عوام کے حقیقی مسائل کیا ہیں۔ کیا ائیر کنڈیشنڈ حکومتی ایوانوں میں بیٹھے ہوئے وزراء، وزیر اعظم کی معاونینِ خصوصی کی فوج اور سرکاری زعماء کے ساتھ ساتھ اپوزیشن رہنما بھی یہ سمجھ سکتے ہیں کہ عوام کے حقیقی مسائل کیا ہیں اور ان کا تدارک کیسے کیا جائے؟

یقیناً نہیں، لیکن وزیرِ اعظم کا یہ اعلان کہ ہم عوام میں سے ایسے لوگوں کو چنیں گے جو ٹائیگر فورس کا حصہ بن کر لوگوں کے مسائل حل کرنے کے لیے کام کریں گے، اپنے آپ میں ایک اہم بات ہے، کیونکہ عوام کے مسائل تو عوام ہی سمجھ سکتے ہیں۔

لفظ ٹائیگر کے استعمال سے اپوزیشن میں یہ تاثر پیدا ہوا  کہ ٹائیگر فورس میں پی ٹی آئی کے کارکنان شریک ہوں گے جس سے تحریکِ انصاف کے ووٹ بینک کو فائدہ پہنچے گا، تاہم یہ ایک غلط فہمی کے سوا کچھ نہیں۔

وزیرِ اعظم کے سٹیزن پورٹل کے ذریعے ملک کے کسی بھی حصے سے کوئی بھی رضا کار اپنی رجسٹریشن کروا سکتا ہے جو 10 اپریل تک جاری رہے گی۔ نوجوانوں کو راشن گھروں تک سپلائی کرنے کی تربیت دی جائے گی۔

وزیرِ اعظم کا امیج اور ٹائیگر فورس میں نوجوانوں کا کردار 

یہاں یہ بات سمجھنا بھی انتہائی ضروری ہے کہ وزیرِ اعظم عمران خان کی عمر اِس وقت 67 برس سہی، ملک کا نوجوان طبقہ آج بھی ان کی حمایت کرتا ہے۔ عمران خان کے امیج کا انتہائی اہم حصہ ان کی نوجوانوں میں مقبولیت ہے جس کا فائدہ وہ ٹائیگر فورس کے قیام کے بعد اٹھا سکتے ہیں۔

اگر ہم ٹائیگر فورس میں نوجوانوں کے کردار کی بات کریں تو ایک اور اہم بات خوشگوار حقیقت بن کر سامنے آجاتی ہے۔ ہم یہ کہہ چکے کہ وزیرِ اعظم عمران خان نوجوانوں میں مقبول ہیں، ہمیں معلوم ہے کہ ٹائیگر فورس کیلئے زیادہ تر نوجوانوں کو میدانِ عمل میں لایا جائے گا اور ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ ملک کی زیادہ تر آبادی اسی طبقے پر مشتمل ہے۔

یہ وہ خوشگوار حقیقت ہے جو کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں ہر قیمت پر پاکستان کے لیے مفید ثابت ہوگی۔ جوانی انسانی زندگی کا سب سے خوشگوار  دور ہوتا ہے۔ یہی وہ وقت ہے جب آپ ملک کے کچھ کرنے کا نہ صرف جذبہ بلکہ طاقت بھی رکھتے ہیں کیونکہ بچپن میں عقل نہیں ہوتی اور بڑھاپے میں آپ طاقت سے محروم ہوجاتے ہیں۔

جنگ کی حقیقی تیاری 

کورونا وائرس اب کوئی تصور نہیں  بلکہ وطنِ عزیز میں پنجے گاڑنے کے بعد ایک سفاک حقیقت بن چکا ہے۔ ملک کے نوجوان طبقے کو یہ احساس ہونا چاہئے کہ اگر وہ ملک کو لاک ڈاؤن کے دوران غربت و افلاس اور اس کے بعد کورونا وائرس سے بچانا چاہتے ہیں تو انہیں وائرس کے خلاف جنگ کی حقیقی تیاری کرنا ہوگی۔

ملک میں کوروناوائرس کے خلاف لاک ڈاؤن کے دوران شہریوں کی غیر سنجیدگی، احتیاط نہ کرنا اور حکومتی اقدامات کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے قوانین کی خلاف ورزی کرنا ایسے رویے ہیں جن کا مظاہرہ نوجوانوں کی طرف سے عموماً زیادہ کیا جاتا ہے۔

ایسے میں وزیر اعظم کی طرف سے کورونا ریلیف ٹائیگر فورس کا قیام ہوا کا خوشگوار جھونکا ثابت ہوسکتا ہے اور رضا کاروں اور نوجوان طبقے کو چاہئے کہ اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں تاکہ کورونا وائرس جیسی عالمی وباء کا مقابلہ کیا جاسکے۔ 

Related Posts