پلاسٹک کی آلودگی بدتر ہوتی جارہی ہے اور ہمارے سمندروں کو خطرہ ہے۔ وائلڈ لائف گروپ ڈبلیو ڈبلیو ایف نے سمندروں میں پلاسٹک کی بڑھتی ہوئی آلودگی پر خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے اور بین الاقوامی معاہدے بنانے اور اس مسئلے کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق پلاسٹک سمندر کے تمام حصوں میں بھرچکا ہے اورسب سے چھوٹے خوردبینی پودوں سے لے کر سب سے بڑی وہیل تک پایا جاتا ہے۔یہ آرٹک سمندری برف سے لے کر سمندر کے سب سے گہرے حصے، ماریانا ٹرینچ تک سب سے دور دراز علاقے تک پہنچ گیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 88 فیصد سمندری انواع متاثر ہیں اور بہت سے جانوروں نے پلاسٹک کے ذرات کو کھا لیا ہے، حتیٰ کہ وہ انسان بھی کھاتے ہیں۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ تقریباً 19 اور 23 ملین ٹن پلاسٹک کا فضلہ سمندروں میں گرایاجاتا ہے۔ یہ زیادہ تر استعمال شدہ پلاسٹک کی مصنوعات سے نکلتا ہے جو سمندری آلودگی کا 60 فیصد ہے۔
دنیا بھر کے ممالک نے ان کے استعمال پر پابندی لگا دی ہے لیکن وہ اس کو ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے اور یہ اب ایک مشکل صورتحال تک پہنچ گیا ہے اور ہمارے ماحولیاتی نظام کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ بن چکا ہے۔
سمندری آلودگی کی وجہ سے آبی پرندوں اور کچھوئوں کو بھی مرتے ہوئے دیکھا جارہا ہے اور ممنوعہ جال بھی سمندری حیات کیلئے کئی چیلنجز کا سبب ہے
پلاسٹک ایک بار پانی میں انحطاط پذیر ہوکر چھوٹے چھوٹے ذرات میں تبدیل ہوجاتا ہے جو مائیکرو پلاسٹک کا حجم 2040 تک اب بھی دوگنا ہو سکتا ہے جس سے پلاسٹک کے فضلے میں چار گنا اضافہ ہو سکتا ہے۔
اس کا واحد حل یہ ہے کہ آلودگی کو فوری طور پر روکا جائے کیونکہ سمندروں کے جذب ہونے کی حد ہوتی ہے۔ انسانی صحت پر مضر اثرات کے بارے میں بھی ناکافی شواہد موجود ہیں۔
ہمارے سمندروں کو آلودہ ہونے سے روکنے کا واحد طریقہ صفائی ہے جس کے آپریشن پر کھربوں کی لاگت آسکتی ہے تاہم یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ دنیا بھر میں پلاسٹک پر کوئی بین الاقوامی معاہدہ نہیں ہے۔اب دنیا بھر کے ماحول کو آنے والے خطرے پر رہنماؤں پر دباؤ ڈالنے اور پلاسٹک کی آلودگی کے خلاف کارروائی کرنے کی ضرورت ہے۔