گھریلو زیادتیوں اور تشدد کے خلاف قانون نافذ ہونے میں مشکل کی ایک سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں یہ بہت بڑے پیمانے پر موجود ہے۔ میاں بیوی، بچوں اور حتیٰ کہ والدین سمیت بہت سے رشتے جسمانی تشدد کا شکار ہیں۔
ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں ایک شخص نے اپنی والدہ کو بے رحمانہ تشدد کا نشانہ بنایا، جس کے بعد ہر رحم دل رکھنے والا شخص صدمے اور مایوسی کا شکار ہوا ہے، جائیداد کے تنازعہ پر اپنی بیوی کے مبینہ طور پر اکسائے جانے پر اپنی ہی والدہ کے خلاف جسمانی تشدد پر عوام میں غم و غصہ پایا جارہا ہے، دنیا میں ایک ماں ہی سب سے زیادہ مقدس رشتہ ہے اور مذہبی احکامات کے مطابق والدین کی نا فرمانی کو سختی سے منع کیا گیا ہے۔
اس شخص کو پولیس کی جانب سے گرفتار کرلیا گیا ہے اوراس کے خلاف سخت قانونی کارروائی ہونی چاہئے، اس واقعے کے بعد گھریلو زیادتیوں اور تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات پراعلیٰ حکام کی جانب سے نوٹس لیا گیا ہے، ہم نے بچوں کے خلاف جنسی زیادتی کے متعدد واقعات دیکھے ہیں۔ خیرپور میں ایک استاد کو اس کے نابالغ طلباء سے زیادتی کرتے ہوئے پکڑا گیا ہے۔ یہ انکشاف ہوا ہے کہ وہ سو سے زیادہ بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنا چکا ہے۔
ہمارے معاشرے میں چھوٹے چھوٹے گھریلو ملازمین کو انصاف نہیں ملتا، جو چھوٹی چھوٹی باتوں پرمار دیئے جاتے ہیں یا بے دردی سے تشدد کا نشانہ بنائے جاتے ہیں، زہرہ شاہ کو محض طوطا آزاد کرنے پر اس کے مالک نے قتل کیا تھا۔ غیرت کے نام پر قتل، خواتین کے خلاف جرائم، عصمت دری کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔ حکومت بچوں کے مزدوری کرنے پر پابندی عائد کرنے پر غور کر رہی ہے لیکن قانون سازی کرنا مشکل ہوگا۔ اس سال کے شروع میں زینب الرٹ بل پر منظور ہونے پر کوئی عمل درآمد نہیں ہوا ہے۔
ذاتی تعلقات میں جسمانی تشدد اکثر گھر سے ہی شروع ہوتا ہے۔ یہ آہستہ آہستہ شروع ہوتا ہے اور پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ ہوتا جاتا ہے اور بدنامی کے ڈر سے اس طرح کے واقعات کو چھپایا جاتا ہے، جسمانی تشدد غیر قانونی، غیر اخلاقی ہے اور کسی بھی صورت میں اسے برداشت نہیں کیا جانا چاہئے۔ اگر کوئی جسمانی طور پر زیادتی کا شکار ہورہا ہے تو اس طرح کے افراد کو مدد فراہم کرنے کے لئے ہم متاثرین سے بات کرکے ان کے شعور کواجاگر کرسکتے ہیں۔
کسی بھی دوسرے شخص پر ظلم کرنے والے افراد ہمیشہ ظلم کا شکار ہونے والے کو ہی مورد الزام ٹھہراتے ہیں، اس طرح کے افراد اپنا ذہنی تناؤ چھپانے کے لئے منشیات، الکحل، شراب اور دوسرے نشے کرتے ہیں، ہمیشہ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ جسمانی تشدد کاہمیشہ زیادتی کرنے والا ذمہ دار ہوتا ہے، اسے کبھی بھی طور پر کوئی جواز بنا کر قبول نہیں کیا جاسکتا، ہمیں اپنے معاشرے میں ہر قسم کی زیادتیوں کے خلاف مزید سخت کارروائیاں کرنے کی ضرورت ہے۔