افغانستان میں امن کی خواہش

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

وزیراعظم عمران خان کاکہنا ہے کہ پاکستان کا افغانستان میں کوئی پسندیدہ نہیں ہے،افغان عوام جس حکومت کا بھی انتخاب کریں گے پاکستان انکے ساتھ اچھے تعلقات رکھے گاحکومت کا موقف ہے کہ افغانستان کو باہر سے کنٹرول نہیں کیا جاسکتا،افغان خانہ جنگی کے اثرات پاکستان کے قبائلی علاقوں پر ہونگے،ہم مزید خانہ جنگی کے متحمل نہیں ہوسکتے،طالبان جو کررہے ہیں یا نہیں کررہے ، اس کا پاکستان کے ساتھ کوئی واسطہ نہیں ، ہم نہ تو اس کے ذمہ دار ہیں اور نہ ہی ہم طالبان کے ترجمان ہیںتاہم امن کیلئے طالبان پر دباؤڈالیں گے۔

پاکستان نے ایک بار پھر افغانستان میں امن کی خواہش کا اظہارکرتے ہوئے افغانستان میں امن کیلئے سرحدوں کی حفاظت کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔سربراہ پاک فوج جنرل قمر جاوید باجوہ نے گزشتہ روزمیڈیا نمائندوں سے گفتگو میں کہا کہ میڈیا دونوں ممالک کی عوام کیلئے موزوں ماحول پیداکرنے کیلئے پُل کا کام کرسکتا ہے، امن خراب کرنے والوں کو پہچاننا اور ان کو شکست دینا میڈیا اورعوام کی ذمہ داری ہے۔

آرمی چیف کا کہنا تھا کہ افغانستان میں امن پاکستان کی خواہش ہے، دونوں ممالک کا امن ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہے، امن خراب کرنے والوں کو امن عمل کو نقصان پہنچانے نہیں دیں گے۔سرحدوں کی حفاظت دونوں ممالک کے مفاد میں ہے۔

واشنگٹن میں امریکی اور پاکستانی مشیرانِ قومی سلامتی کی ملاقات ہوئی جس میں افغانستان میں مذاکرات کے ذریعے سیاسی تصفیے اور پر تشدد کارروائیوں میں کمی کی فوری ضرورت پر تبادلہ خیال کیا گیا جبکہ پاک امریکا دو طرفہ تعاون میں پیشرفت برقرار رکھنے پر اتفاق کیاگیا،دونوں عہدیداروں کے درمیان واشنگٹن میں ہونے والی یہ دوسری ملاقات تھی اس سے قبل دونوں عہدیدار مارچ میں جنیوا میں ملاقات کرچکے تھے۔

دوسری جانب ترجمان افغان طالبان سہیل شاہین کاکہناہے کہ کابل انتظامیہ کے پاکستان پر الزامات بلاجواز ہیں،ہم لڑائی نہیں امن چاہتے ہیں، افغان فورسز کے اہلکار اضا کارانہ طور پر ہمارے ساتھ مل رہے ہیں۔ہماری پالیسی ہے کہ ہم افغانستان کی سرزمین کو کسی ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے جب بھی افغانستان میں ہماری حکومت ہو گی اس وقت ہم عملی طور پر ثابت کریں گے اب بھی جو علاقے ہمارے کنٹرول میں ہیں وہاں کسی کو دوسرے ملک کے خلاف کوئی قدم اٹھانے کی ہرگز اجازت نہیں دیں گے۔

امریکی ماہرین افغانستان میں دو عشروں کی امریکی جنگ میں ناکامی کی وجوہات شمار کر رہے ہیں اور اسے شروع ہی سے بدقسمت قرار دیتے ہوئے ویتنام میں امریکا کے تجربے سے موازنہ کر رہےہیں جبکہ طالبان امریکا کے ڈرون حملوں کے باوجود اس وقت افغانستان کے بیشتراضلاع پر قابض ہوچکے ہیں اور طالبان کو اپنی طاقت کا بخوبی ادراک ہوچکا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ طالبان جب چاہیں مرکزی اورصوبائی دارالحکومتوں کی طرف پیش قدمی کرسکتے ہیں، اب تک ایسا نہ کرنا طالبان کی حکمت عملی کا حصہ ہے تاکہ طالبان کو بین الاقوامی قبولیت کی سند مل سکے۔

افغانستان کی بدلتی صورتحال کے باوجود پاکستان افغان حکومت اور طالبان کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے ایک توازن بنائے ہوئے ہے اور پاکستان افغانستان میں امن کا خواہاں ہے جس کیلئے افغان عوام کی طرف سے منتخب کردہ کسی بھی حکومت کے ساتھ تعاون کیلئے تیار ہے۔

افغان حکومت پاکستان پر بے بنیاد الزامات لگانے کے بجائے اپنے اندرونی معاملات پر توجہ مرکوز کرے اور ملک میں امن کاقیام یقینی بنائے تاکہ امن دشمن قوتوں کو انتشار پھیلانے کا موقع نہ مل سکے۔

Related Posts