پی ڈی ایم کی بحالی

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

پی ڈی ایم کو بحال کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں، جس کی سربراہی اب مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کر رہے ہیں، توقع کی جا رہی ہے یہ کوششیں کامیاب نہیں ہوں گی، حکومت مخالف اتحاد سے نکالی گئی جماعتیں پی پی پی اور اے این پی نے اس اتحاد کو مکمل طور پر غیر موثر قرار دے دیا ہے، اور دونوں پارٹیاں پی ڈی ایم میں واپسی کی خواہش مند نہیں ہیں۔

شہباز شریف نے گذشتہ ہفتے پی ڈی ایم کے پہلے اجلاس میں شرکت کی اور اتحاد کو بحال کرنے کے مشن پر قائم ہوکر کہا کہ کسی بھی جماعت کو اتحاد کو مسترد کرنے کا حق نہیں ہے۔ PDM نے انتخابی اصلاحات کو مسترد کرتے ہوئے اپنی بیان بازی دوبارہ شروع کردی ہے اور کہا ہے کہ جولائی سے قبل بڑے پیمانے پر طاقت کا مظاہرہ شروع کردیا جائے گا۔ تاہم، پیپلز پارٹی اور اے این پی کو اتحاد میں شامل ہونے کی اجازت دینے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔

شہباز بڑی سیاسی جماعتوں کی واپسی چاہتے ہیں لیکن انہیں مریم نواز اور جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی جانب سے مخالفت کا سامنا ہے، دراصل، حالیہ ملاقات کے دوران اس موضوع پر بھی بات نہیں ہوئی۔ شہباز شریف چاہتے ہیں کہ اپوزیشن کے تمام رہنما ایک بار پھر متحد ہوں تاکہ آنے والے بجٹ کو منظور کرنے میں حکومت کو ٹف ٹائم دیا جاسکے۔ مگر پی ڈی ایم کے آپسی اختلافات دیکھ ایسا لگتا نہیں ہے کہ وہ حکومت کو ٹف ٹائم دے پائیں گے۔

پی پی پی اور اے این پی نے پی ڈی ایم کے حکومت کے خلاف وضع کردہ ‘ایکشن پلان’ سے ہٹ کر اپنی اپنی مہمات چلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس بات کا امکان نہیں ہے کہ منقسم حزب اختلاف کا حکومت پر کوئی خاص اثر پڑے۔ سینیٹ انتخابات اور وزیر اعظم کو اقتدار سے ہٹانے میں ناکامی کے بعد اس اتحاد نے اپنا اثر کھو دیا ہے۔

اب ساری توجہ نواز شریف پر ہے جو اگلے انتخابات سے پہلے فائدہ اٹھانے کے لئے تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر ’گرینڈ ڈائیلاگ‘ تجویز کررہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) عمران خان کی حکومت کے خلاف مزاحمت کرنے کے قابل نہ ہونے پرمایوس ہے،ضمنی انتخابات میں چند کامیابیوں کے علاوہ، ن لیگ کے اقتدار میں واپس آنے کا امکان نہیں ہے،جب تک کہ ن لیگ اپنی پارٹی بھرپور طریقے سے منظم نہیں کرتی۔

مسلم لیگ (ن) ایک کشمکش کی صورتحال سے دوچار ہے، جس نے پی ڈی ایم کو الجھا دیا ہے۔ شریف برادران بھی ایک پیج پر نہیں ہیں کیونکہ نواز شریف محاذ آرائی چاہتے ہیں جبکہ شہباز شریف امن پسند ہیں۔ اگر وہ اپنی تحریک جاری رکھنا چاہتا ہے تو PDM کو واضح حکمت عملی اپنانا ہوگی۔ ابھی تک، PDM کا حکومت کے خلاف کردار نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ اگر اتحاد بحال بھی ہوجاتا ہے تو اس سے حکومت پر کوئی فرق پڑنے کا امکان نہیں ہے۔

Related Posts